پردے کے بارے میں سوال جواب

نہ ہو، جیساکہ اَکابِرعُلَماء نے تَصریح فرمائی ہے  ۔ مُحَقِّق عَلَی الْاطلاقنے ’’ فَتْحُ الْقدیر‘‘ میں   فرمایا کہ اہلِ عُرف کا ناقص سمجھنا سبب ہے لہٰذا حکم کا دارو مدار اس پر ہی ہوگا الخ ۔  مزید صَفْحَہ 715 پر فرماتے ہیں   : جُولاہے ، دھوبی، نائی اور موچی کی عار(عیب و خامی) علم کی وجہ سے خَتم نہیں   ہو تی، ہاں   جب یہ لوگ قدیم( یعنی عرصۂ دراز)   سے یہ کام چھوڑ چکے ہوں   اور لوگ معزَّز انداز میں   ان سے مانوس     ہو چکے ہوں   اور لوگوں   کے دلوں   میں   ان کا وقار اور عام نگاہوں   میں     ان کی وَقعَت (عزَّت) قائم ہو چکی ہو کہ اب بڑے لوگوں   کی    لڑکیوں   کیلئے عار (یعنی رُسوائی کاسبب ) نہیں   رہے تو اور بات ہے  اِلَخ ۔

          میمن اور سیِّدہ کا کورٹ مَیرج

سُوال :  اگر سیِّدزادی نے باپ سے چُھپ کر راضی خوشی کے ساتھ کسی میمن لڑکے سے کورٹ  کے ذَرِیعے شادی کر لی تو نکاح صحیح ہو گیا یا نہیں  ؟

جواب :  ایسی صورت میں   نکاحمُنعَقِد(یعنی قائم) ہی نہیں   ہوگااِس لئے کہ ساداتِ کرام کا خاندان مَیمن برادری سے اعلیٰ واَرفَع ہے لہٰذا میمن لڑکا سیِّدزادی کا کُفو نہیں   اور جب لڑکی ولی کی اجازت کے بِغیرنکاح کرے تو نکاح ہونے کے لئے کفو کا پایا جانا ضروری ہے  ۔

سُوال :  اگر شادی کے بعد گھروالوں   سے صُلح ہوگئی اور سیِّد زادی کے والِد صاحِب نے بخوشی اُس نکاح پر رِضا مندی کا اظہار کر دیا اب تو کوئی حَرَج نہیں  ؟

جواب :  حَرَج کیوں   نہیں  ! اس سیِّد زادی کی رِضا مندی کے ساتھ ساتھ اس کے والِد صاحِب کی رِضا مندی بھی نکاح سے پہلے ضَروری تھی  ۔  نِکاح کے بعدکی اِجازت مُفید نہیں   ۔ شریعت کے تقاضوں   کے مطابق نئے سِرے سے نِکاح کرنا ہوگا ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں  : ’’شرع میں   غیر کفو وہ ہے کہ نَسَب یا مذہب یا پیشے یا چال چلن میں   ایسا کم ہو کہ اس کے ساتھ عورت کا نکاح اولیائے زن(یعنی عورت کے سر پرستوں  ) کے لیے باعثِ ننگ وعار(یعنی ذلت و رسوائی کاسبب) ہو، ایسے شخص سے اگر بالِغہ بطور خود نکاح کرے گی نکاح ہوگا ہی نہیں   اگرچِہ نہ ولی(سرپرست) نے منع کیا ہو نہ اس کے خلاف مرضی ہو ۔  یہ نکاح اس صورت میں   جائز ہوسکے گاکہ ولی نے پیش از نکاح اس غیرِکُفو بمعنٰی مذکور کی حالت مذکورہ پر مطلع ہوکر دیدہ ودانستہ صراحۃً بالِغہ کو اس کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت دے دی ہو، ان میں   سے ایک شرط بھی کم ہو تو بالغہ کا کیا ہوا وہ نکاح باطِل محض ہوگا اور ولی کو اس کے فَسخ(منسوخ) کرنے یا اس کا فسخ (منسوخی)چاہنے کی کیا حاجت کہ فَسخ(منسوخ ۔ کینسل) تو جب ہو کہ نکاح ہولیا ہو، یہ توسِرے سے ہوا ہی نہیں   ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۱۱ص۲۸۰)

سیِّد زادے اور میمن لڑکی کا کورٹ میرج

سُوال :   اگربالِغ سیِّدزادہ اپنے والِد صاحِب کی اِجازت کے بِغیراپنے گھر کی بالِغہ میمن نوکرانی سے کورٹ میں   جا کر نکاح کر لے تو؟

جواب :  اگر کوئی اورمانِعِ شَرعی نہ ہو تونِکاح صحیح ہو جائے گا ۔ مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہبہارِ شریعت حصّہ7 صَفْحَہ 53 میں   ہے : ’’ کفائت(یعنی کفو ہونا) صرف مرد کی جانب سے معتبر ہے عورت اگرچِہ کم درجے کی ہو اس کا اعتبار نہیں    ۔ باپ دادا کے سوا کسی اور ولی(سرپرست) نے نابالِغ لڑکے کا نکاح غیر کفوسے کر دیا تو نکاح صحیح نہیں   ۔  اور بالِغ اپنا خودنِکاح کرنا چاہے تو غیرِکُفو عورت سے کر سکتا ہے کہ عورت کی جانب سے ا س صورت میں   کفائت معتبر نہیں   اور نابالغ میں   دونوں   سے کفائت کا اعتبار ہے  ۔ (بہارِ شریعت حصّہ ۷ ص ۵۳) یہ مسئلہ نِکاح کے مُنعَقِد ہونے کی حد تک تو دُرُست ہے  ۔ البتّہ اِس طرح ’’کورٹ میرج ‘‘ کرنے سے گھریلو مسائل کھڑے ہو جاتے اور خاندان کی ٹھیک ٹھاک بدنامی ہو تی ہے یہ بھی پیش نظر رکھنا ہو گا ۔  لہٰذا نِکاح ماں   باپ کی رِضا مندی ہی سے کیا جائے  ۔

سوال :  اگر کسی پٹھان لڑکی نے راجپوت قو م کے مسلمان لڑکے سے بِغیر اجازتِ ولی نکاح کیا، کیا نکاح مُنعَقِد ہوجائے گا؟

جواب :  راجپوت مُعزَّز قوم ہے لہٰذااگر باقی شرائطِ کُفو پائے جاتے ہوں   اور دیگر شرائط نکاح پائی جائیں   تونکاح ہو جائے گا ۔ فتاوٰی رضویہ شریف میں   ہے :  ’’ہندوانی قوموں   میں   چار قومیں   شریف گنی جاتی ہیں   ان میں  چَھتری یعنی ٹھاکر دوسرے نمبر پرہے ، ہندوستان میں   اکثر سلطنت اسی قوم کی ہے ، ولہٰذا انھیں   ’’راجپوت ‘‘کہتے ہیں   ۔  تو ہِندی قوموں   میں   ان کا مُعزَّز ہونا ظاہِر ہے  ۔ ‘‘(فتاوٰی رضویہ ج۱۱ص۷۱۹)ہاں   اگر لڑکی کسی قوم کے ایسے لڑکے سے بلا اجازتِ ولی نکاح کرے جو اپنے پیشے (یعنی روزگار) کی بنا پر عُرف میں   معیوب سمجھے جاتے ہوں  تو ایسی صورت میں   نکاح نہ ہوگا ایسی ہی صورت پر مشتمل فتاوٰی فیضُ الرّسول سے ایک سوال جواب ملاحظہ کیجئے :  سوال’’ہِندہ جو قوم سے پٹھان ہے اور لڑکا جو قوم سے گھانچی یعنی مسلم تَیلی ہے وہ ہِندہ کے لئے کُفوہو سکتا ہے یا نہیں   ؟ ‘‘ جواب’’کفائت کا دارو مدار عُرف پر ہے اگر وہاں   کے عرف میں   پٹھان کی لڑکی کا گھانچی یعنی مسلم تیلی سے نکاح کرنا والِدَین کے لئے باعثِ عار (رُسوائی کا سبب) ہو تو فَسخِ (یعنی منسوخیٔ) نکاح کی ضَرورت(ہی) نہیں   کہ مذہبِ مُفتیٰ بِہٖ ([1])پر وہ نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں   ۔  ‘‘(فتاوی فیض الرسول ج۱ ص۷۰۵ )

          غیر سیِّد اور سیِّدہ کا نکاح

سُوال :  اگر غیرِ سیِّد پٹھان اورعاقِلہ بالِغہ سیِّد زادی کا نکاح لڑکی کے والِد کی رِضا مندی سے ہوا تو؟

 



[1]     مذہب مفتي بہ يہ فقيہی اصطلاح ہئے اس کے معنی ہیں  : وہ مذہب جس پر فتوی دیاجاتا ہے  ۔

Index