نہ دیکھ رَشک سے تہذیب کی نُمائش کو کہ سارے پھول یہ کاغذ کے ہیں خداکی قسم
وُہی ہے راہ ترے عزم و شوق کی منزِل جہاں ہیں عائِشہ و فاطِمہ کے نقشِ قدم
تِر ی حیات ہے کردارِ رابِعہ بصری
ترے فَسانے کا موضوع عِصمتِ مریم
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تُو بُوا اِلَی اللّٰہ! اَسْتَغْفِرُاللّٰہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
کافِروں کی اُلٹی ترقّی کی رِیس کرتے ہوئے بے پردَگی اور بے حیائی کا بازار گرم کرنے والے ذرا غورتو فرمائیں ۔ یورپ، امریکہ اور ان سیمُتأَثِّر ہونے والے ملکوں میں کیا ہو رہا ہے !رقص گاہوں میں لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی بہو بیٹیوں کو دوسروں کی آغوش میں دیکھتے ہیں اور ٹس سے مس نہیں ہوتے بلکہ وہ دَیُّوث فخر سے اِتراتے ہوئے داد دے رہے ہوتے ہیں !بے پردہ اور فیشن اَیبل عورَتوں کے ’’منہ کالے ‘‘ ہونے کی حیا سوزخبریں آئے دن اخبارات میں چَھپتی ہیں ۔ وہ عورت جو مرد کی شَہوت رانی کا شکا ر ہوتی ہے اُسے اگرحَمْل ٹھہر گیا تو وہ کہاں سر چُھپائے گی؟ حَمْل گرانے کی صورت میں وہ اپنی جان بھی کھو سکتی ہے ۔ چلئے مانا کہ یورپ کے ترقّی یافتہ ممالِک میں ایسے اَسپتال موجود ہیں جو اِسقاطِ حَمْل( یعنی حمل گرانے ) کی’’ خدمت ‘‘انجام دیتے ہیں اور ایسی پناہ گاہیں بھی موجود ہیں جہاں غیر شادی شُدہ ماؤں کو’’ پناہ ‘‘ مل جاتی ہے لیکن کیامُعاشَرے میں انھیں کوئی قابلِ احتِرام مقام بھی نصیب ہو سکتا ہے ! مانا کہ رُسوا ہو کر ان دونوں (یعنی غیرشادی شدہ جوڑے ) نے اپنے کیے کی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ سزا پائی لیکن وہ بچّہ جو اِس طرح پیدا ہواہے اگر زندہ بچ بھی گیا تو اُس کا کیابنے گا ؟ اس کے ہَوَس کا رباپ نے بھی اس سے آنکھیں پھیر لیں ، بد کار ماں بھی
اُسے کچرا کُونڈی یا کسی محتاج خانے میں چھوڑ کر چلی گئی !
دوسری جنگِ عظیم میں امریکہ کے سپاہی اپنے دوست ملک برطانیہ کی مدد کے لئے ’’ تشریف‘‘ لائے تھے ۔ وہ چند سال برطانیہ میں ٹھہرے اور جب گئے تو سرکاری اَعدادوشُمار کے مطابِق ستّر ہزار حرامی بچّے چھوڑ کر گئے ! یورپ کے بعض ملکوں میں حرامی بچّوں کی شَرحِ پیدائش ساٹھ فی صد سے بھی متجاوِز ہو گئی ہے اور کنواری ماؤں کی تعداد میں ہو شرُبا اضافہ ہو رہا ہے ۔ طَلَاقوں کی کثرت ہے ، گھروں میں سُکون کی دولت نہیں ملتی، میاں بیوی میں اعتمادمَفقُود (یعنی غائب)ہے زوجہ اور خاوَندمیں سچّی مَحَبَّت کا فُقدان ہے ۔ برداشت اور ایثار کا جذبہ خَتْم ہو چکا ہے ، کوئی بات کسی کی مرضی کے خِلاف ہوگئی جھٹ طَلَاق حاصِل کر لی ۔ غور فرمایئے !میاں بیوی کی ذِہنی ہم آہنگی جو کہ مُعاشَرہ کی خِشْتِ اوّل(یعنی پہلی اینٹ )ہے اورمُحکَم اَساس ( یعنی مضبوط بُنیاد)بھی یہی ہے کہ جس پر مُعاشَرے کامَحَل تعمیر کیا جاسکتا ہے ، اگر یہ بنیادہی کمزور ہوگی تو صحّت مند مُعاشَرہ کیسے تعمیر ہو گا ؟
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّوَجَلَّاسلام نے جن چیزوں کے بجا لانے کا حکم دیا ہے ان میں ہمارا بھلا ہے اور جن چیزوں سے روکا ہے انہیں کرنے میں ہمارا نقصان ہے ۔ یہ دین اَبد تک کے لئے ہے اِس لئے کوئی ایسا وَقت نہیں آسکتا کہ اس کی حرام کی ہوئی چیزیں حلال ہو جائیں یا ان پرمُرتَّب ہونے والے نُقصاناتخَتْم ہو جائیں ۔
اٹھا کر پھینک دے اللہ کے بندے
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
چادر اور چار دیواری کی تعلیم کس نے دی؟
سُوال : بعض آزادمَنِش مرد و عورت کہتے ہیں کہ عُلَمائے کرام عورَتوں کو چار دیواری میں بِٹھا دینا چاہتے ہیں !
جواب : اِس میں عُلَمائے کرام کااپنا کوئی ذاتی مَفاد نہیں ۔ یہ دنیا کے کسی عالمِ دین کا نہیں ، ربُّ الْعٰلمِین جَلَّ جَلاَ لُہٗ کا ارشادِ حقیقت بُنیاد ہے :
وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى (پ۲۲ الاحزاب ۳۳)
تَرجَمۂ کنزالایمان : اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ ر ہو جیسے اگلی جاہِلیَّت کی بے پردَگی ۔
دیکھا آپ نے ! عورت کیلئے چادر اور چاردیواری کا حکم کسی عام شخص کا نہیں ، ہم سب کے پالنے والے ربِّ مصطَفٰے عَزَّ وَجَلَّ و صلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وسلَّمکا فرمانِ عالی ہے ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تُو بُوا اِلَی اللّٰہ! اَسْتَغْفِرُاللّٰہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد