اورابوالقُعَیس کے بھائی افلح حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے رَضاعی چچا ہوئے ۔ جب پردے سے مُتَعَلِّق آیاتِ مقدّسہ نازِل ہوئیں تو افلح نے حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کے پاس آنا چاہا تو آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا نے پردے کی احتیاط کے پیش نظر منع فرما دیا چُنانچِہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں کہ پہلے میں سرکارِمدینۂ منوّرہ، سردارِمکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے دریافت کر لوں کہ دودھ کے رشتے کی وجہ سے اَفلح کا مجھ سے پردہ ہے یا نہیں کیوں کہ میں یہ سمجھتی ہوں کہ دودھ تو میں نے ابوالقُعَیس کی زوجہ کا پیا ہے ، اَفلح سے کیا رشتے داری ؟اس پر رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : اے عائشہ !اَفلح کو اجازت دے دو وہ تمہارے رَضاعی چچا ہیں ۔ ( ایضا ص۳۰۶حدیث۴۷۹۶)
{5}دوپٹے باریک نہ ہوں
حضرت سیِّدُنادِحیہ بن خلیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم ، رَحمتِ عالَم ، شاہِ آدَم وبنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت ِسراپا رحمت میں ایک مرتبہ مصر کے سفید رنگ کے باریک کپڑے لائے گئے سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان میں سے ایک کپڑا مجھے عطا کیااور ارشاد فرمایا : اس کے دو ٹکرے کر کے ایک سے اپنا کرتا اور دوسرا اپنی بیوی کو دے دیناجس سے وہ اپنا دوپٹا بنا لے ۔ راوی کہتے ہیں جب میں چلنے لگا تو حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھے اس بات کی تاکید کی کہ اپنی بیوی کو کہنا کہ اس کے نیچے دوسرا کپڑا لگا لے تا کہ دوپٹے کے نیچے کچھ نظرنہ آئے ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۴ ص۸۸حدیث ۴۱۱۶)
{6}باریک دوپٹّا پھاڑ دیا
ایک مرتبہاُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کی خدمت ِسراپا غیرت میں ان کے بھائی حضرتِ سیِّدُنا عبد الرحمن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی بیٹی سَیِّدَتُنا حفصہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا حاضِر ہوئیں انہوں نے باریک دوپٹّااَوڑھ رکھا تھا ، حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے اِس دوپٹّے کو پھاڑ دیا اور انھیں موٹا دوپٹّا اُڑھا دیا ۔
(مؤطا امام مالک ج۲ص۴۱۰ حدیث۱۷۳۹)
مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اس دوپٹّہ کو پھاڑ کر دو رومال بنادیئے تاکہ اوڑھنے کے قابل نہ رہے ، رومال کے کام آوے لہٰذا اس پر یہ اعتراض نہیں کہ آپ نے یہ مال ضائع کیوں فرمادیا ۔ مزید فرماتے ہیں : یہ ہے عملی تبلیغ اور بچّیوں کی صحیح تربیّت و تعلیم اس دوپٹّہ سے سر کے بال چمک رہے تھے ، ستر حاصل نہ تھا اس لیے یہ عمل فرمایا ۔ (مراٰۃ ج۶ص۱۲۴)
{7}عہد رسالت میں حجاب آزاد مسلمان عورت کی علامت تھا
حضرتِ سیِّدُنا اَنَس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا بیان ہے کہ نبیِّ رَحمت ، شفیعِ امّت، شَہَنشاہِ نُبُوَّت ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خیبر اورمدینۂ منوَّرہ (زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْما) کے درمیان تین دن قیام فرمایا، اسی دوران حضرتِصَفِیہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہا کو اپنے حَرَم میں داخِل فرمایاپھر دورانِ سفر آپ نے صحابۂ کرامعَلَیْہِمُ الرِّضْوان کی دعوتِ ولیمہ کی اس میں روٹی اور گوشت کااہتمام نہ تھابلکہ آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اُس پر کجھوریں ، پنیر اور گھی رکھاگیا ۔ یہی سب کچھ ولیمہ تھا لیکن تا حال صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوان پر یہ واضِح نہ ہواتھا کہ حضرتِ صفیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو حضور ِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی زوجیت میں لیا ہے یا کہ باندی بنایاہے (کیونکہ یہ خیبر کی جنگی قیدیوں میں شامل تھیں )انہوں نے اپنی اس الجھن کو حل کرنے کے لئے طے کیا کہ اگرسرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کو پردہ کراتے ہیں تو سمجھو کہ زَوجیت میں لیا ہے اور اگر حجاب(یعنی پردہ) نہ کرایا تو سمجھو باندی بنایا ہے ۔ جب قافِلے نے کوچ کیا تو حضور ِ پُر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے پیچھے حضرتِ صَفِیہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی جگہ بنائی اور ان کے اور لوگوں کے درمِیان پردہ تان دیا ۔ (بُخارِی ج ۳ ص۴۵۰حدیث۵۱۵۹)
{8}ہر حال میں پردہ
حضرتِ سیِّدَتُنا اُمِّ خلّاد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا ۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاان کے بارے میں معلومات حاصِل کرنے کیلئے نِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضِر ہو ئیں ، اِس پر کسی نے حیرت سے کہا : اِس وقْت بھی آپ نے نِقاب ڈال رکھا ہے ! کہنے لگیں : میں نے بیٹاضَرور کھویا ہے ، حیا نہیں کھوئی ۔ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۳ ص۹حدیث ۲۴۸۸)
{9}بیوی گھر سے باہَر نکلی ہی کیوں !
حضرتِ سیِّدُناابوسعید خدریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک نوجوان صَحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ۔ ایک بار جب وہ اپنے گھر تشریف لائے تو دیکھا کہ اُن کی دُلہن گھر کے دروازے پر کھڑی ہے ، مارے جلال کے نَیزہ تان کر اپنی دُلہن کی طرف لپکے ۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ گئی اور رو کر پکاری : میرے سرتاج! مجھے مت ماریئے ، میں بے قُصُور ہوں ، ذرا گھر کے اندر چل کر دیکھئے کہ کس چیز نے مجھے باہَر نکالا ہے ! چُنانچِہ وہ صَحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اندر تشریف لے گئے ، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خطر ناک زَہریلا سانپ کُنڈلی مارے بچھونے پر بیٹھا ہے ۔ بے قر ار ہو کر سانپ پر وار کرکے اس کو نیزے میں پِرَو لیا ۔ سانپ نے تڑپ کر اُن کو ڈس لیا ۔ زخمی سانپ تڑپ تڑپ کر مر گیا اور وہ غیرت مند صَحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ بھی سانپ کے زَہر کے اثر سے جامِ شہادت نوش کر گئے ۔ (صَحِیح مُسلِم ص۲۲۸ حدیث۲۳۶)
اُس پاکیزہ دور کے مسلمانوں کی غیرت ِایمانی کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جا سکتا ہے جس کو علّامہ ابن ہِشام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ’’اَلسِّیْرَۃُ النَّبَوِیَّۃُ‘‘ میں درج کیا آپ لکھتے