پردے کے بارے میں سوال جواب

میں  گناہوں   کی دَلدَل سے نکل آئی

            اسلامی بہنو! صدقِ دل سے مانگی جانے والی دعائیں   اللہ ورسول عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی مہربانی سے قَبول ہوتیں  ، التجائیں   سُنی جاتیں   اور مُرادیں   بَر آتی ہیں   چُنانچِہ پنجاب (پاکستان) کی ایک اسلامی بہن کے تحریری بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ  دعوتِ اسلامی کے مہکے مہکے مَدَنی ماحول میں   آنے سے پہلے میں   گناہوں   کی دلدل میں  بُری طرح پھنسی ہوئی تھی ، دل اگرچِہ گناہوں   سے بیزار ہوچکا تھا مگر خَلاصی کی کوئی راہ دکھائی نہ دیتی تھی ، میں   علمِ دین سے بِالکل کَوری تھی ، اکثر کچھ اس طرح دُعا مانگا کرتی  : ’’ اے میرے پَروَردگارعَزَّوَجَلَّ  میں  سدھرنا چاہتی ہوں   میرے سُدھرنے کے اسباب پیدا فرماد ے  ۔ ‘‘آخِر دُعائیں   رنگ لائیں   اور ایک دن یہ خوش خبری سننے کوملی کہ ’’ دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام اسلامی بہنوں   کا سنّتوں   بھرا اِجتماع 12اگست 2001ء بروز اتوار فُلاں   مقام پر ہوگا  ۔  ‘‘میں   تو پہلے ہی پیاسی تھی چُنانچِہ شِدّت سے اِجتماع کے دن کا اِنتظار کرنے لگی  ۔  آخِرکار وہ دن بھی آگیااور میں   بڑے شوق سے اسلامی بہنوں   کے سنّتوں   بھرے اِجتماع میں   شریک ہوئی  ۔  تلاوت اور اس کے بعد نعت شریف سن کر میں   نے اپنے دل میں   سوزوگداز محسوس کیا  ۔  جب مُبَلِّغۂ دعوتِ اسلامی نے سنّتوں   بھرا بیان شروع کیا تو میں   ہمہ تن گوش ہو گئی ، جب بیان ختم ہوا تو میرا چہرہ آنسوؤں   سے تر تھا  ۔  پھر اسلامی بہنوں   کے ہفتہ وار سنّتوں   بھرے اجتماع کا اعلان ہوا تو اس میں   شرکت کی پکی نیّت کر لی  ۔  اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اجتماع میں   پابندی سے شرکت کی بدولت مجھے گناہوں   کی دلدل سے نکلنا نصیب ہوا  ۔  آج میں   عَلاقائی ذمّہ دار کی حیثیت سے اسلامی بہنوں   میں   نیکی کی دعوت کی دُھومیں   مچانے کے لئے کوشاں   ہوں    ۔

میرے اعمال کا بدلہ تو جہنَّم ہی تھا

میں   تو جاتا مجھے سرکار نے جانے نہ دیا

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

دُعاء کے فضائل

          اسلامی بہنو!واقعی یہ دُرُست ہے کہ’’ نیّت صاف منزِل آسان ‘‘ اُن اسلامی بہن کو سدھرنے کی تڑپ تھی اور اس کیلئے دعائیں   کرتی تھیں   تواللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُن کی اِصلاح کے اسباب مُہیا فرما دیئے  ۔  ہمیں   بھی چاہئے کہ نفس و شیطان کے شَر سے خَلاصی کیلئے دعائیں   مانگنے میں   کوتاہی نہ کریں   کہ دُعا مؤ من کا ہتھیار ہے ، دُعا سے تقدیر بدل جاتی ہے  ۔ دوفرامینِ مصطَفٰیصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ملاحظہ ہوں    :  

 {1}کیا میں   تمہیں   وہ چیز نہ بتاؤں   جو تمہیں   تمہارے دشمن سے نَجات دے اور تمہارا رِزْق وسیع کر دے ، رات دن اللّٰہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے رہو کہ دُعا مومِن کا ہتھیار ہے  ۔ ( مُسْنَد اَبی یَعْلٰی ج۲ ص۲۰۱ حدیث۱۸۰۶){2} دعا تقدیر کو ٹال دیتی ہے اور بِرّ (یعنی احسان کرنے ) سے عمر میں   زیادتی ہوتی ہے اوربندہ گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتاہے  ۔ (ِ اِبن ماجہ ج۴ ص۳۷۹ حدیث ۴۰۲۲) دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘حصّہ 16 صَفْحَہ 199پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی   فرماتے ہیں   : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ  دعا سے بلائیں   دفع ہوتی ہیں   یہاں   تقدیر سے مراد تقدیر معلق ہے   اور زیادتی عمر کا بھی یہی مطلب ہے کہ احسان کرنا درازی عمر کا    سبب ہے اور رزق سے ثواب اخروی مراد ہے کہ گناہ اس کی محرومی کا سبب ہے اور ہوسکتا ہے کہ بعض صورتوں   میں   دنیوی رزق سے بھی محروم ہوجائے  ۔  

 کسی کے گھر میں   مت جھانکئے

سُوال :  کیا جان بوجھ کر کسی کے گھر میں   جھانکناشریعت میں   منع ہے ؟

جواب : جی ہاں   ۔ البتّہ دروازہ پہلے ہی سے کُھلا ہوا ور بے اختیار کسی کی نظر پڑ گئی تو حرج نہیں    ۔ افسوس! صدکروڑ افسوس! اب اِس اَمْر کی طرف اکثر مسلمانوں   کی توجُّہ ہی نہیں   ۔ لوگ گھروں   کے دروازوں   میں   بِلاجِھجک جھانکتے ہیں   ، حتّٰی کہ دروازہ کُھلا نہ ہو تو اُچک اُچک کر  جھانکتے ہیں   ، دراڑ میں   سے جھانکتے ہیں   ، کھڑکی میں   سے جھانکتے  ہیں  ، پردہ ہٹا کر جھانکتے ہیں   اور اس بات کی مُطْلَقاً پرواہ نہیں   کرتے کہ کسی کے گھر میں   جھانکنے کی شریعت میں   مُمانَعت ہے  ۔

آنکھ پھوڑ ڈالنے کا اختِیار

سُوال : اگر دستک دینے کے باوُجُود جواب نہ ملے تو کیا اب بھی گھر میں   نہیں   جھانک سکتے ؟

 جواب :  نہیں   جھانک سکتے  ۔ حضرت ِ سیِّدُنا ابُو ذَر غِفاریرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حُضُور تاجدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کا فرمانِ عبرت نشان ہے : ’’ جس نے اجازت ملنے سے پہلے ہی پردہ ہٹا کر مکان کے اندر نظر کی اور گھر والوں   کے سِتْر کو دیکھااُس نے ایسا کام کیا جو اُس کیلئے حلال نہ تھاجب اُس نے دیکھا اگر کوئی بڑھ کر اُس کی آنکھ پھوڑ دے تو اِس پر میں   اُسے (یعنی آنکھ پھوڑنے والے کو)شرم نہ دلاؤں   گا ۔ اگر کوئی ایسے دروازے کے پاس سے گزرا جس پر نہ کوئی پردہ ہے اور نہ دروازہ بند ہے ، لہٰذا اُس نے (بِلاقَصد) دیکھا تو اُس پر گناہ نہیں   بلکہ خطاگھر والوں   کی ہے  ۔  (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج ۴ص ۳۲۴ حدیث ۲۷۱۶)

 

Index