جانے کا اِتّفاق ہوا ۔ ان کے گھر کے بالکل قریب اسلامی بہنوں کا سنّتوں بھرا اجتماع ہوتا تھا ، ایک اسلامی بہن کی دعوت پر میں بھی اجتماع میں چلی گئی ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اُس اجتماع نے میری سوچوں کا رُخ تبدیل کر کے رکھ دیا! پھر میں نے بابُ المدینہ کراچی میں ہی ربیعُ النور شریف کی بہاریں دیکھیں تودل نیکیوں کی طرف مزید مائل ہوا ۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ عَزَّ وَجَلَّ میں نے نماز پڑھنا شروع کردی ۔ مَدَنی اِنعامات پر عمل اور شرعی پردہ کرنا نصیب ہوگیا ۔ دعوتِ اسلامی کا مَدَنی کام کرتے کرتے تادمِ تحریر میں عَلاقائی سطح پر مَدَنی اِنعامات کی ذمّے دار کی حیثیت سے سنّتوں کی خدمت کرنے کی سعادت پارہی ہوں ۔
آئی نئی حکومت سکّہ نیا چلے گا
عالم نے رنگ بدلا صبحِ شبِ ولادت
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
جشنِ ولادت دیکھ کر قبولِ اسلام
اسلامی بہنو! اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہدایت دینے والا ہے ، جب وہ کسی کو نوازنا چاہتا ہے تو خود ہی اسباب بھی مُہیا کر دیتا ہے ، جیسا کے ایک ماڈَرن خاتون کے لئے اسباب ہو جانے پر اس نے مَدَنی ماحول میں شُمُولیّت کی سعادت پائی ۔ سبحٰنَ اللّٰہ! جشنِ ولادت کی بھی کیا خوب برکتیں ہیں ۔ اس کے ذَرِیعے تو نہ جانے کتنوں کے بگڑے مقدَّر سنور جاتے ہیں ۔ ایک اسلامی بھائی نے بتایا کہ جشنِ ولادت میں مسجِد کی سجاوٹ سیمُتأَثِّر ہو کر ایک کافر نے اسلام قبول کر لیا کہ واہ واہ! مسلمان اپنے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادت پر کس قَدر اہتمام کے ساتھ خوشیاں مناتے ہیں ، مسلمانوں کو اپنے نبی سے کس قدر والہانہ پیار ہے ۔
جشنِ ولادت منانے والوں سے آقا خوش ہوتے ہیں
سبحٰنَ اللّٰہ!خود شہنشاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بھی اپنا جشنِ ولادت منانے والوں سے پیار کرتے ہیں چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحمٰن کے فرمان کا خلاصہ ہے : بعض عاشِقان رسول نے خواب میں جشنِ ولادت کے عمل سے محبوبِ ربِّ لَم یَزَل عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو خوش دیکھا اور فرماتے سنا : مَنْ فَرِحَ بِنَا فَرِحْنَا بِہٖ یعنی جو ہماری خوشی کرتا ہے ہم اُس سے خوش ہوتے ہیں ۔ (خلاصہ از فتاویٰ رضویہ ج۱۵ ص ۵۲۲، ۵۲۳)
خوشیاں مناؤ بھائیو! سرکار آ گئے سرکار آ گئے شہِ ابرار آ گئے
عید میلادُ النَّبی سے ہم کو بے حدپیار ہے اِن شاءَ اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
عشقِ مَجازی کے مُتَعَلِّق سُوال جواب
سُوال : جو نہ چاہتے ہوئے بھی بِغیر کسی غیر شَرعی حرکت کے اِتِّفاقِیہ عشقِ مجازی میں مُبتَلا ہو جائے کیا وہ گنہگار ہے ؟
جواب : نہیں ۔ کیوں کہ اِس میں اس کا اختیار نہیں ۔
سُوال : تو اب مریضِ عشق کو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : صَبْر کر کے اَجْر کمانا چاہئے ۔
سُوال : واہ! عشقِ مجازی کے ذَرِیعے ثواب بھی کمایا جا سکتا ہے ؟
جواب : کیوں نہیں ۔ یہ بات یاد رکھئے کہ بے اختیار عشق ہو جانے کی صُورت میں بھی ثواب پانے کیلئے شَریعت کی پاسداری ضَروری ہے ۔ مَثَلاً اگر مرد کی کسی غیر عورت پر اچانک نظر پڑ گئی اور فوراً نظر ہٹالینے کے باوُجُود اگر وہ دل میں گڑ گئی اور اس کے بعد نہ قصداً اس کا تصوُّر جمایا نہ ہی اِرادۃًاُس کو دیکھا، نہ کبھی اُس سے ملاقات کی، نہ ہی فون پر بات کی، نہ اُس کو عِشقیہ خط لکھا اور نہ ہی کبھی کوئی تُحفہ بھجوایا اَلغَرَضاُس ہو جانے والے غیر اختیاری عشقِ مَجازی کو ایسا چُھپایا کہ کسی دوسرے پر کُجا خود اُس لڑکی کو بھی پتا نہ چلنے دیا تو ایسا ’’ عاشِقِ صادِق‘‘ اگر عِشق میں گُھل گُھل کر مَر جائے تو شہید ہے ۔ چُنانچِہ راحتُ الْعاشِقین ، مُرادُ الْمُشتاقِین ، شمسُ العارِفین، سِراجُ السَّالِکین، خا تَمُ النَّبِیِّیْن، جنابِ رَحمۃٌ لِّلْعٰلمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ دلنشین ہے : جو کسی پر عاشِق ہوا اور اُس نے پاکدامَنی اختیار کی اور عشق کو چُھپایاپھر اسی حال میں مر گیا تو وہ شہادت کی موت مرا ۔ ( تاریخ بغداد ج ۱۳ ص ۱۸۵ رقم ۷۱۶۰ )دیکھا آپ نے ! عاشقِ صادِق کیلئے یہ شرائط ہیں کہ پاکدامَنی اختیار کرے اور اپنے عشق کو چُھپائے رکھے تب وہ عشق میں مرا تو شہید ہے ۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’بہارِ شریعت‘‘جلد اوّل صَفْحَہ 859پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے شہادت کی 36اَقسام بیان کی ہیں اُن میں 16نمبر یہ ہے : ( وہ بھی شہید ہے جو ) عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہواور چُھپایا ہو ۔