عورت کے لئے فون وُصُول کرنے کا طریقہ؟
سُوال : اسلامی بہن غیر مردوں کے فون وُصول کر سکتی ہے یا نہیں ؟
جواب : اِسی احتیاط کے ساتھ کر سکتی ہے ۔ یعنی آواز نرم نہ ہو ۔ مَثَلاً نرمی کے ساتھ ’’ ہیلو ہیلو ‘‘کہنے کے بجائے روکھے انداز میں پوچھے ، ’’کون؟‘‘ یہاں مُعامَلہ ذرا دشوار ہے کیوں کہ امکان ہے کہ سامنے والا گھر کے کسی مرد سے بات کروانے کا مطالَبہ کرے ، اپنا نام و پیغام بیان کرے اور بات کرنے کا وَقت وغیرہ پوچھے ۔ نیز یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خدانخواستہ باحیا اورباعمل اسلامی بہن کے بھِنچے ہوئے رُوکھے اندازِ گفتگو کا بُرا منائے ، اورشرعی مسائل سے ناواقِف ہونے کے سبب مُنہ پھَٹ ہو تو’’ کچھ‘‘ بول بھی پڑے جیسا کہ بعض اسلامی بھائیوں نے اپنا تجرِبہ بیان کیا ہے کہ نامَحرم عورَتوں سے ضَرورتاً فون پر بات کرنے کی نوبت آنے پر ہمارے غَیر نرم اور رُوکھے لہجے پر عورَتوں نے معاذاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ اس طرح کی باتیں سنا دی ہیں : ( مَثَلاً) مولانا! آپ کو غصّہ کیوں آ رہا ہے ! بَہرحال عافیَّت اِسی میں معلوم ہوتی ہے کہ ’’آنسوَرِنگ مَشین‘‘ لگا دی جائے اور اُس میں مَرد کی آواز میں یہ جُملہ بھر دیا جائے : ’’پیغام ریکارڈ کروادیجئے ۔ ‘‘ بعد میں مَردوں کے ریکارڈ شُدہ پیغامات گھر کے مرد اپنی سَہولت سے سُن لیا کریں ۔ اُمَّہاتُ الْمؤمنین رَضِی َاللہ ُتَعَالٰی عنہُنّ کی غیر مردوں سے گفتگو کے مُتَعَلِّق پارہ22 سورۃُ الْاَ حزابکی آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوتا ہے :
یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِهٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاۚ(۳۲)
ترجَمۂ کنزالایمان : اے نبی کی بیبیو! تم اور عورَتوں کی طرح نہیں ہو اگر اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) سے ڈرو تو بات میں ایسی نرمی نہ کروکہ دل کا رَوگی کچھ لالچ کرے ہاں اچھّی بات کہو ۔
سُوال : عورَت کو بُزُرگ سے خطرہ ہوتا ہے یا بُزرگ کو عورت سے ؟
جواب : دونوں کو ایک دوسرے سے خطرہ ہوتا ہے ۔ کسی کو بھی اپنے نَفس پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے ۔ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطبوعہ561 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ملفوظات اعلیٰ حضرت‘‘ صَفْحَہ 454پر میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت فرماتے ہیں : ’’جو اپنے نفس پر اعتماد کرے اس نے بڑے کذّاب (یعنی بہت بڑے جھوٹے ) پر اعتماد کیا ۔ ‘‘(الملفوظ) شیطان کس طرح انسان کو پھانس کر برباد کرتا ہے اِس کو سمجھنے کیلئے ایک عبرتناک حِکایت مُلاحَظہ فرمایئے ۔ چُنانچِہ منقول ہے : بنی اسرائیل میں ایک بَہُت بڑا عابِد یعنی عبادت گزار شخص تھا ۔ اُسی عَلاقے کے تین بھائی ایکبار اُس عابِد کی خدمت میں حاضِر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ ہمیں سفر درپیش ہے ، واپَسی تک ہماری جوان بہن کوہم آپ کے پاس چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں ۔ عابِدنے خوفِ فِتنہ کے سبب معذِرت چاہی مگر ان کے پیہم اِصرار پر وہ تیّار ہو گیا اور کہا کہ میں اپنے ساتھ تو نہیں رکھوں گا کسی قریبی گھر میں اُس کو ٹھہرا دیجئے ۔ چُنانچِہ ایسا ہی کیا گیا ۔ عابِد کھانا اپنے عبادت خانے کے دروازے کے باہَر رکھ دیتا اور وہ اٹھا کر لے جاتی ۔ کچھ دن کے بعد شیطان نے عابِدکے دل میں ہمدردی کے انداز میں وَسوَسہ ڈالا کہ کھانے کے اوقات میں جوان لڑکی اپنے گھرسے نِکل کر آتی ہے کہیں کسی بدکار مرد کے ہتّھے نہ چڑھ جائے ، بہتر یہ ہے کہ اپنے دروازے کے بجائے اُس کے دروازے کے باہَر کھانا رکھ دیا جائے ، اس اچّھی نیّت کا کافی ثواب ملیگا ۔ چُنانچِہ اُس نے اب کھانا اُس کے دروازے پر پہنچانا شُروع کیا ۔ چند روز بعد شیطان نے پھر وسوسے کے ذَرِیعے عابِدکا جذبۂ ہمدردی اُبھارا کہ بے چاری چُپ چاپ اکیلی پڑی رہتی ہے ، آخِر اس کی وَحشت دُور کرنے کی اچّھی نیّت کے ساتھ بات چیت کرنے میں کیا گُناہ ہے ! یہ تو کارِ ثواب ہے ، یوں بھی تم بَہُت پرہیز گار آدمی ہو ، نَفس پر حاوی ہو ، نیّت بھی صاف ہے یہ تمہاری بہن کی جگہ ہے ۔ چُنانچِہ بات چیت کا سلسلہ شُروع ہوا ۔ جوان لڑکی کی سُریلی آواز نے عابِد کے کانوں میں رس گھولنا شروع کر دیا، دل میں ہَیجان برپا ہوا، شیطان نے مزید اُکسایا یہاں تک کہ’’ نہ ہونے کا ہو گیا ۔ ‘‘ حتّٰی کہ لڑکی نے بچّہ بھی جَن دیا ۔ شیطان نے دل میں وَسوَسوں کے ذَرِیعے خوف دلایا کہ اگر لڑکی کے بھائیوں نے بچّہ دیکھ لیا تو بڑی رُسوائی ہو گی لہٰذا عزّت پیار ی ہے تو نَو مَولود کا گلا کاٹ کر زمین میں گاڑ دے ۔ وہ ذِہنی طور پر تیّار ہو گیا پھر فوراً وَسوَسہ ڈالا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ لڑکی ہی اپنے بھائیوں کو بتا د ے بس عافیّت اِسی میں ہے کہ ’’ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ دونوں ہی کو ذَبح کر ڈال ۔ اَلغَرَض عابِد نے جوان لڑکی اور ننھے بچّے کو بے دَردی کے ساتھ ذَبح کر کے اُسی مکان میں ایک گڑھا کھود کردَفن کرکے زمین برابر کردی ۔ جب تینوں بھائی سفر سے لوٹ کر عابِد کے پاس آئے تو اُس نے اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا : آپ کی بہن فوت ہو گئی ہے ، آئیے اُس کی قَبْر پر فاتحہ پڑھ لیجئے ۔ چُنانچِہ عابِد انہیں قبرِستان لے گیا اور ایکقَبْر دِکھا کر جھوٹ موٹ کہا : یہ آپ کی مرحومہ بہن کی قَبْر ہے ۔ چُنانچِہ اُنہوں نے فاتحہ پڑھی اور رنجیدہ رنجیدہ واپَس آ گئے ۔ رات شیطان ایک مسافِر کی صُورت میں تینوں بھائیوں کے خوابوں میں آیا اور اُس نے عابِد کے تمام سیاہ کارنامے بیان کر دیئے اورتدفین والی جگہ کی نشاندہی بھی کر دی کہ یہاں کھودو ۔ چُنانچِہ تینوں اُٹھے اور ایک دوسرے کو اپنا خواب سنایا ۔ تینوں نے مل کر خواب میں کی گئی نشاندہی کے مطابِق زمین کھود ی تو واقِعی وہاں بہن اور بچّے کی ذَبح شدہ لاشیں موجود تھیں ۔ وہ تینوں عابِد پر چڑھ دوڑے ، اُس نے اقبالِ جُرم کر لیا ۔ انہوں نے بادشاہ کے دربار میں نالِش کر دی ۔ عابِد کو اُس کے عبادت خانے سے گھسیٹ کر نکالا گیا اور سُولی دینے کا فیصلہ ہوا ۔ جب سولی پر چڑھانے کیلئے لایا گیا تو شیطان اُس پر ظاہِر ہوا اور کہنے لگا : مجھے پہچان! میں تیرا وُہی شیطان ہوں جس نے تجھے عورت