فلیٹ یا کمرہ بھی الگ کرائے پر لے سکتی ہے تو بے شک وہ اگرعُمرے یا نفلی حج کیلئے جائے تو حَرَج نہیں ۔ افسوس! آج کل حَرَمینِ طیِّبین زادَھُماللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً میں کرائے کے مکانات میں اکثر اجنبی اوراَجْنَبِیَّہ ایک ہی کمرہ کے اندر اکٹّھے رہتے ہیں ۔ یہی حال منیٰ شریف اور عَرَفات شریف کے خَیموں میں ہوتا ہے ۔ حقیقی معنوں میں باحیا اور شَرعی پردے کا مَدَنی ذِہن رکھنے والی اسلامی بہنوں اور اسلامی بھائیوں کیلئے سخت امتحان ہوتا ہے ۔ اگرعُمرے یا نفلی حج سے مقصود صِرف رِضائے الہٰی عَزَّ وَجَلَّ ہے تو اِس نیک کام میں صَرف ہونے والی رقم کسی غُربت کے مارے علاج کیلئے مجبور گمبِھیر بیمار یا بے روزگار یا قرضدار یا سخت لاچار کو بہ نیّتِ ثواب پیش کر کے اَجْرکا انمول خزانہ اور دُکھی دل کی دُعائیں لی جا سکتی ہیں ۔
پئے ’’ نیکی کی دعوت‘‘ تُو جہاں رکھے مگر اے کاش!
میں خوابوں میں پہنچتاہی رہوں اکثر مدینے میں
اُمُّ الْمُؤمِنِین عُمر بھر گھر سے باہَر نہ نکلیں
سُوال : کیا بُزُرگ خواتین میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ وہ نفلی حج کیلئے نہ نکلی ہوں ۔
جواب : جی ہاں مِثال موجود ہے ۔ حالانکہ آج کے مُقابلے میں وہ دَور بے حد پُر اَمْن تھا ۔ چُنانچِہاُمُّ الْمُؤْمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَافرض حج ادا کر چکی تھیں ۔ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے دوبارہ نفلی حج وعمرہ کے لئے عرض کی گئی تو فرمایا کہ : میں فرض حج کر چکی ہوں ۔ میرے رب عَزَّ وَجَلَّ نے مجھے گھر میں رہنے کا حکم فرمایا ہے ۔ خدا کی قسم! اب میرے بجائے میرا جنازہ ہی گھر سے نکلے گا ۔ راوی فرماتے ہیں ، خدا کی قسم! اس کے بعد زندَگی کے آخِر ی سانس تک آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا گھر سے باہَر نہیں نکلیں ۔ (تفسیرِ درّمنثور ج ۶ ص ۵۹۹)
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ جب اُس پاکیزہ دور میں بھی اُمُّ الْمُؤْمِنِین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکی پردے کے مُعامَلے میں اِس قَدَر اِحتیاط تھی تو آج اِس گئے گزرے دَور میں جس میں پردے کا تصوُّر ہی مِٹتا جارہا ہے ، مرد و عورَت کی آپَسی بے تکلُّفی اور بدنِگاہی کو مَعاذَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ عیب ہی نہیں سمجھا جا رہا ایسے نا مُساعِد حالات میں ہرحیادارو پردہ دار اسلامی بہن سمجھ سکتی ہے کہ اُس کو کتنی محتاط زندَگی گزارنی چاہئے ۔
عورت کو مسجِد کی حاضِری مَنْع ہونے کی وجہ
سُوال : عورت کو مسجِد میں نَمازِ باجماعت سے کیوں روکا گیا ہے ؟
جواب : شَریعت کو پردے کی حُرمت کا بے حد لحاظ ہے ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حیاتِ ظاہِری کے دَور میں عورَت مسجِد میں با جماعت نَمازیں ادا کرتی تھی پھر تَغَیُّرِزَمان( یعنی تبدیلیٔ حالات) کے سبب عُلَمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامنے عورَتوں کو مسجِد کی حاضِری سے مَنْع فرما دیا ۔ حالانکہ عورَتو ں کو مسجِد کی صَفوں میں سب سے آخِر میں کھڑا ہونا ہوتا تھا ۔ چُنانچِہ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں : مرد اور بچّے اور خُنثٰیاور عورَتیں ( نَماز کیلئے )جَمْع ہوں تو صَفوں کی ترتیب یہ ہے کہ پہلے مَردوں کی صفَ ہو پھر بچّوں کی پھرخُنثٰی کی پھر عورَتوں کی ۔ (دُرِّمُختار ج ۲ص ۳۷۷، بہارِ شریعت حصّہ۳ ص ۱۳۳)عورَتوں اور مَردوں کا جہاں اِختِلاط ہو(یعنی دونوں ہی مِکس ہوں ) ایسی عام محفِلوں وغیرہ میں باپردہ جانے سے بھی اسلامی بہنوں کو باز رہنے کے تعلُّق سے سمجھاتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ’’ مساجِد سے بہتر عام محفِل کہاں ہو گی ! اور ( مسجِد کی نَماز میں ) سِتْربھی کیسا ( یعنی پردے کیلئے ترکیب بھی کیسی زبردست ) کہ (نَماز کے دَوران ) مَردوں کی اُدھر ایسی پیٹھ کہ (وہ عورَتوں کی طرف) مُنہ نہیں کر سکتے اور انہیں ( یعنی مَردوں کو یہ بھی )حکم کہ بعدِ سلام جب تک عورَتیں (مسجِد سے باہَر) نہ نکل جائیں نہ اُٹھو ۔ مگر عُلَما نے اوَّلاً ( یعنی شروع شروع میں ) کچھ تَخْصِیصَیں کیں ( یعنی احتیاطی شرائط مقرّر فرمائیں ) جب زمانہ فِتَن کا(یعنی فتنوں کا دور) آیا( اور بے پردَگی کے گناہوں نے زور پکڑا تو مسجِد میں نَماز کیلئے عورَتوں کی حاضِری کو) مُطْلَقًا( یعنی مکمَّل طور پر ) ناجائز فرمایا ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۲ ص ۲۲۹)میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : اُمُّ الْمُؤمِنِین صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکا ارشاد اپنے زمانے میں تھا : اگرنبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ملاحَظہ فرماتے جو باتیں عورتوں نے اب پیدا کی ہیں تو ضَرور انھیں مسجد سے مَنع فرمادیتے جیسے بنی اسرائیل کی عورَتیں منع کردی گئیں ۔ پھر تابِعین ہی کے زمانے سے اَئِمّہ (یعنی اماموں ) نے ( مساجِد میں آنے کی بَتَدرِیْج ) مُمانَعَت شروع فرمادی ، پہلے جو ان عورَتوں کو پھر بوڑھیوں کو بھی، پہلے دن میں پھر رات کو بھی، یہاں تک کہ حکمِ مُمانَعَت عام ہوگیا ۔ کیااُس زمانے کی عورَتیں گَربے والیوں کی طرح گانے ناچنے والیا ں یا فاحِشہ دَلّالہ تھیں (اور) اب(یعنی موجودہ دور میں ) صالِحات(یعنی نیک پرہیزگار) ہیں یا جب(یعنی گزشتہ دور میں ) فاحِشات (بے حیا عورات) زائد تھیں اب صالِحات(نیک عورات) زیادہ ہیں یا جب (یعنی گزشتہ دور میں ) فیوض وبرکات نہ تھے اب ہیں یا جب (یعنی گزشتہ دور میں )کم تھے اب زائد ہیں ، حاشا (یعنی ہرگز نہیں )بلکہ قَطعاً یقینا اب مُعامَلہ بِالعکس (یعنی گزَشتہ سے الٹ)ہے ۔ اب اگر ایک صالِحہ(نیک خاتون) ہے تو جب (یعنی گزَشتہ دور میں )ہزار تھیں ، جب (یعنی