نکاح کے کچھ دن بعد معلوم ہوا کہ زید کُفو نہیں ۔ اس صورت میں نکاح ہوگیا یا نہیں ؟
جواب : جب اولیا ء نے کسی سے لڑکی کا نکاح بشرطِ کفائت کیا یعنی اس شرط کے ساتھ کہ تم لڑکی کے کُفو ہو بعد میں لڑکا کُفو نہ نکلاتو مذہب مُفتیٰ بہٖ میں ایسا نکاحمُنْعَقِد ہی نہ ہوا ۔ (ماخوذ ازفتاوٰی رضویہ ج۱۱ ص۷۲۵، ۷۲۸)
سُوال : اگرکوئی بالِغہ لڑکی از خودبِلا اجازتِ اولیاء اپنا نکاح کسی ایسے شخص سے کرے جس نے غَلَط بیانی اور دھوکہ دہی سے کام لیتے ہوئے اپنے آپ کو اس لڑکی کا کُفو بتایا مَثَلًالڑکی سید ہ تھی لڑکے نے وقت نکاح اپنا سیِّدہو نا ظاہر کیا لیکن بعد ِنکاح حقیقت کُھل کر سامنے آئی کہ وہ شخص سیّد نہیں بلکہ شیخ برادری سے ہے ایسی صورت میں نکاح دُرُست ہوا یا نہیں ؟
جواب : اگر صورت واقعی یہی تھی کہ بالِغہ لڑکی نے اولیاء کی اجازت کے بِغیر جس سے نِکاح کیااس نے جھوٹ بول کراپنا کُفو ہونا ظاہِر کیا بعد نکاح اس کا غیر کفو ہونا ثابت ہوا تو شرعاً ایسا نکاح مُنْعَقِد ہی نہیں ہوا بلکہ یہ نکاح باطِل ہے ۔ (ماخوذ ازفتاوٰی رضویہ ج۱۱ ص۷۰۲، ۷۰۳)
یاد رہے ! اپنے حقیقی باپ کو چھوڑ کرکسی دوسرے کو اپنا باپ بتانا یا اپنے خاندان ونَسَب کو چھوڑ کر کسی دوسرے خاندان سے اپنا نَسب جوڑنا حرام اور جنت سے محروم کرکے دوزخ میں لے جانے والا کام ہے ۔ اس بارے میں بڑی سخت وعیدیں حدیثوں میں آئی ہیں چُنانچِہ دو جہاں کے سلطان ، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رَحمٰن عَزَّ وَجَلَّ وصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نِشان ہے : جو اپنے باپ کے غیر کو اپنا باپ بنانے کا دعویٰ کر ے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے تو اس پر جنَّت حرام ہے ۔ (بُخارِی ج۴ ص۳۲۶حدیث۶۷۶۶)
شادی کارڈ میں باپ کانام غلط ڈالنا
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہاں وہ لوگ عبرت حاصل کریں جو لے پالک بچّے کادل رکھنے کیلئے اس پر اپنے آپ کو حقیقی باپ ظاہر کرتے ہیں اور وہ بھی بے چارہ عمر بھر اُسی کو اپنا حقیقی باپ سمجھتا ہے ، اپنے سچّے باپ کو ایصالِ ثواب اور اس کیلئے دُعا کرنے تک سے محروم رہتا ہے ۔ یاد رکھئے ! ضروری دستاویزات ، شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور شادی کارڈ وغیرہ میں بھی حقیقی باپ کی جگہ منہ بولے باپ کا نام لکھوانا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والاکام ہے ۔ طلاق شدہ یا بیوہ عورتیں بھی اپنے اگلے گھر کے بچوں کو ان کے حقیقی باپ کیمُتَعَلِّق اندھیرے میں رکھ کر آخِرت کی بربادی کا سامان نہ کریں ۔ عام بول چال میں کسی کو ابّا جان کہدینے میں حَرَج نہیں جبکہ سب کو معلوم ہو کہ یہاں ’’جسمانی رشتہ‘‘ مراد نہیں ۔ ہاں اگر ایسے ’’ابّا جان ‘‘ کوبھی کسی نے سگا باپ ظاہر کیا تو گنہگار و عذابِ نار کا حقدار ہے ۔ شیخ الحدیث حضرتِ مولیٰنا عبد المصطَفٰے اعظمیعلیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ القوی فرماتے ہیں : آج کل بے شمار لوگ اپنے آپ کو صدّیقی و فاروقی و عثمانی و سیِّد کہنے لگے ہیں ! انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ لوگ ایسا کرکے کتنے بڑے گناہ کے دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ خداوند ِکریم عَزَّ وَجَلَّ ان لوگوں کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس حرام و جہنمی کام سے ان لوگوں کو توبہ کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) (جہنم کے خطرات ص ۱۸۲ملخصاً)
سُوال : مذہبی آدمی یا لڑکے کو لڑکی دینا ہمارے معاشرے میں عُرفاً معاذاللہ عار سمجھا جاتا ہے اور ایسے نکاح کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فُلاں کی لڑکی کو کسی نے نہیں لیا تو مولوی کے کھاتے میں ڈالدی! ایسی سوچ رکھنا کیسا ہے اور کیا اس عار کا کفو میں اعتبار کیا جائے گا؟
جواب : جو سوچ قرآن و حدیث سے ٹکراتی ہو وہ سرا سر باطل ہوتی ہے اور ایسی سوچ کی ہرگز رعایت نہیں کی جا سکتی ۔ شریعتِ مُطَہّرہ نے تو سوچ ہی یہ دی ہے کہ نکاح کرتے وقت مذہب اور دین کو ترجیح دو’’چُنانچِہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’عورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (یعنی نکاح میں ان کا لحاظ ہوتا ہے ) (۱) مال و (۲) حسب و (۳) جمال و (۴) دین ۔ اورتو دین والی کو ترجیح دے ۔ ‘‘(صَحِیحُ البُخارِیّ ج ۳ ص۴۲۹حدیث۵۰۹۰)
مذکورہ حدیث گو لڑکی کے انتخاب کے اعتبار سے ہے لیکن شریعت کے مقصود اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند اور خوشنودی کی بھی خبردیتی ہے کہ دینداری کو ترجیح دی جائے لہٰذا لڑکے کے انتخاب میں جب کُفو کی دیگر شرائط پوری ہوں تو مذہبی لڑکے ہی کو ترجیح دی جائے اور سوال میں درج سوچ کو ہرگز نہ اپنایا جائے ۔ فسق و فجور والوں میں رشتہ کرنے والے دنیاوی طور پر اپنے فعل کو کتنا ہی اچھاسمجھتے ہوں لیکن اس میں آخرت کا نقصان ہی نقصان ہے ۔ ایک صحابیرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’جس نے اپنی لڑکی شرابی کے نکاح میں دی گویا اس نے اپنی لڑکی کو زِنا میں جھونک دیا ۔ ‘‘ کیونکہ شرابی جب نشے میں ہوتا ہے تو کئی دفعہ طلاق واقع ہونے والی باتیں کرتا ہے یوں اس پر بیوی حرام ہوجاتی ہے جب کہ اسے پتا ہی نہیں ہوتا ۔ (تَنْبِیْہُ الغافِلِین ص۸۱)
سُوال : اسلام نے تویہ درس دیا ہے کہ گورے کو کالے اور کالے کو گورے پرفضیلت حاصل نہیں پھرکفو کے معاملے میں ذات اور برادری کا اتناکیوں لحاظ کیا جاتا ہے ؟
جواب : اسلام نے جو یہ کہا ہے کہ گورے کو کالے اورکالے کو گورے پر فضیلت نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کی عزت آبرو جان مال کی حفاظت بغیر کسی فرق کے کی جائے اور احترام اور عزّت میں کسی کو گھٹیا نہ سمجھا جائے یونہی اللہ اوراس کے رسول کے جو اَحکام ہیں اس پر عمل کرنے میں بھی تمام برابر ہیں گورے کو کالے اور کالے کو گورے پر کوئی