پردے کے بارے میں سوال جواب

بھرے اجتِماع کی دعوت پیش کرنے والوں   اور والیوں  نیز مُبَلِّغین کی نیکی کی دعوت کو سننے والوں   اور مبلِّغات کی نیکی کی دعوت سننے والیوں  کی قُبور بھی اِنْ شَآءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّحُضُور مُفِیضُ النُّورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نور کے صدقے نورٌ علیٰ نور ہوں   گی  ۔

قبر میں   لہرائیں   گے تاحَشر چشمے نور کے

جلوہ فرماہوگی جب طَلعَت رسولُ اللہ کیحدائقِ بخشِش شریف)

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

اسلامی بہنوں   کا مَدَنی مشورہ

سُوال :  کیا اسلامی بہنیں   نیکی کی دعوت کے مَدَنی کاموں   میں   ترقّی کے لئے آپس میں   مل بیٹھ کرمَدَنی مشورہ کرنے کے لئے کہیں   جمع بھی ہوسکتی ہیں  ؟

جواب : جی ہاں   شَرعی پردہ اور دیگرقُیُودات کے ساتھ مَدَنی مشورہ کیلئے جَمع ہو سکتی ہیں    ۔  

دَورانِ عدّت سنّتیں   سیکھنے کیلئے  نکلنا کیسا؟

سُوال :  موت یا طلاق کی عدّت کے دَوران اسلامی بہن سنتیں   سیکھنے یا سکھانے کیلئے گھر سے باہَر نکل سکتی ہے یا نہیں  ؟

جواب :   نہیں    ۔

اسلامی بہنوں   کا اجتماع کرنا کیسا؟

سُوال :  اسلامی بہنوں   کاپردے میں   رَہ کر ذِکرُ اللہ عَزَّوَجَلَّ، نعت خوانی ، سنّتوں  بھرے بیان اور دُعاوغیرہ پر مشتمل  سنّتوں   بھرا اجتماع کرنا کیسا ؟

جواب :  اسلامی بہنوں   کو قراٰن وسنّت کی باتیں   بتانا ضَروری ہے تاکہ انہیں   اسلامی زندَگی گزارنے کا ڈھنگ آ جائے  ۔  اس کی مختلف صورَتیں   ہیں   مَثَلاً انہیں   سنّتوں   بھرے بیانات کی کیسٹیں  سُننے اورمُسْتَنَد عُلَمائِ اہلسنّت کی کتابیں    پڑھنے کو دی جائیں  ، نیز پردے کی رعایت کرتے ہوئے کسی جگہ جمع ہوکروہ فرائض وسنّتیں  سیکھیں  ، چُنانچِہمُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت  حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  فرماتے ہیں   : ’’اب فی زمانہ عورَتوں   کو باپردہ مسجِدوں   میں   آنے اور علیٰحِدہ بیٹھنے سے نہ روکا جائے کیونکہ اب عورَتیں   سَینماؤں   بازاروں  میں   جانے سے تو رُکتی نہیں   ، مسجِدوں   میں  آکر کچھ (نہ کچھ) دین کے اَحْکام سُن لیں   گی ۔ ‘‘(مِراٰۃ المناجیح ج ۲ ص۱۷۰)ایک او ر مقام پر فرماتے ہیں  : ’’ان (عورَتوں  ) میں   تبلیغ یا توبَذَرِیعۂ کُتُب ورسائل کی جائے یا ذِی عِلْم عورَتیں   غیرِذِی علم عورَتوں   کو اَحکام سکھادیں   یا نہایت پردے کے ساتھ واعِظ( یعنی بیان کرنے والے عالم) سے بالکل علیٰحدہ ایک عمارت یا بڑے پردے کی آڑلے کر وَعظ واَحکام سنیں   مگر اس تیسری صورت میں   بَہُت اِحتیاط کی ضَرورت ہے  ۔ ‘‘ (فتاویٰ نعیمیہ ص۴۸)

غیر عالِم کو بیان کرنا حرام ہے

سُوال :  جو اسلامی بہن عالِمہ نہ ہوکیا وہ اسلامی بہنوں   کے سنّتوں   بھرے اجتماع میں   بیان کرسکتی ہے ؟

جواب : جو کافی علم نہ رکھتی ہووہ مذہبی بیان نہ کرے  ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت  عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّتفتاوٰی رضویہ جلد23 صَفْحَہ378 پر فرماتے ہیں   : وعظ میں   اور ہر بات میں   سب سے مُقَدّم اجازتِ  اللہو رسول عَزَّ وَجَلَّ و  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ہے  ۔  جو کافی عِلم نہ رکھتا ہو، اُسے وعظ کہنا حرام ہے اور اس کا وعظ سُننا جائز نہیں   ، اور اگر کوئی مَعاذَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ بدمذہب ہے تو وہ تو نائبِ شیطان ہے اس کی بات سننی سخت حرام ہے ( اُس کو مسجِد میں   بیان سے روکا جائے )اور اگر کسی کے (عقیدے میں   خرابی نہ ہو مگر اُس کے ) بیان سے فتنہ اٹھتا ہو تواُسے بھی روکنے کا امام اوراہلِ مسجِد کو حق ہے او ر اگر پورا عالم سُنّی صحیحُ الْعقیدہ وعظ فرمائے تو اُسے روکنے کا کسی کو حق نہیں   ۔  چُنانچِہ اللہ  عَزَّ وَجَلَّ پارہ1 سورۃُ الْبقرہ کی آیت نمبر114 میں   ارشاد فرماتا ہے :  

وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ ( پ۱ البقرہ ۱۱۴)

ترجَمۂ کنزالایمان : اوراس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ) کی مسجدوں   کو روکے ان میں   نامِ خدا لئے جانے سے  ۔  ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص۳۷۸)

عالم کی تعریف

سُوال :  تو کیا مبلِّغ بننے کیلئے درسِ نظامی(یعنی عالم کورس) کرنا شرط ہے ؟

جواب :  عالم ہونے کیلئے نہ درسِ نظامی شرط ہے نہ اس کی محض سند کافی بلکہ علم چاہئے  ۔  میرے آقا اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مُستقِل ہو اور اپنی ضَروریات کو کتاب سے نکال سکے بِغیر کسی کی مدد کے  ۔  علم کتابوں   کے مُطالَعَہ سے اور عُلَماء سے سُن سُن کر بھی حاصِل ہو تا ہے  ۔  (تَلْخِیص اَز اَحکامِ شریعت حصّہ ۲ ص ۲۳۱ )معلوم ہوا عالم ہونے کیلئے درسِ نظامی کی تکمیل کی سند ضَروری ہے نہ ہی کافی نہ ہی عَرَبی فارسی وغیرہ کا جاننا شرط ، بلکہ علم درکار ہے  ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   : سند کوئی چیز نہیں   بُہتیَرے سَنَد یافتہ مَحض بے بَہرہ( یعنی علْمِ دین سے خالی) ہوتے ہیں   اور جنہوں   نے سند نہ لی اِن کی شاگردی کی لیاقت بھی اُن سَنَد یافتوں   میں   نہیں   ہوتی ، عِلْم ہونا چاہئے  ۔  ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص۶۸۳) اَلْحَمْدُ لِلّٰہعَزَّوَجَلَّفتاوٰی

Index