پردے کے بارے میں سوال جواب

جواب :  سیِّد زادی اور ان کے والِد محترم کو دولھے کے پٹھان ہونے کا علم ہے اور دونوں   ہی یعنی شہزادی صاحبہ اور ان کے والِد محترم اِس نِکاح پر راضی ہیں  اِس صورت میں   ایسا نِکاح بِلا شبہ جائز ہے  ۔ اِس ضِمن میں   فتاوٰی رضویہ  جلد 11 صَفْحَہ704سے ایک’’ سُوال جواب‘‘ ملاحَظہ ہو ۔  سُوال : پٹھان کے لڑکے کا سیِّد کی لڑکی سے نِکاح جائز ہے یا نہیں  ؟ بَیِّنُوْا تُوْجَرُوا(یعنی بیان فرمایئے اجر کمایئے ) ۔  الجواب : سائلِ مُظہِر (یعنی سُوال پوچھنے والے کے بیان سے ظاہر ہے ) کہ لڑکی جوان ہے اور اس کا باپ زندہ ، دونوں   کو معلوم ہے کہ یہ پٹھان ہے اور دونوں   اس عَقد (نِکاح) پر راضی ہیں  ، باپ خود اس کے سامان میں  ہے ، جب صورت یہ ہے تو اس نکاح کے جَواز (یعنی جائز ہونے ) میں   اصلاً (یعنی بالکُل)شُبہ نہیں   کَمَا نَصَّ عَلَیْہِ فِی رَدِّالْمُحتار وغیرہ مِنَ الْاَسْفَار (یعنی جیساکہ رَدُّالمحتار وغیرہ کُتُب میں   اس پر نَص ہے )    واللہ تعالٰی اَعلم ۔

(2) اسلام میں   کُفو ہونا

سُوال : کفو ہونے میں   اسلام کا بھی اعتبار ہے اس سے کیا مراد ہے ؟

 جواب :   باعتبار اِسلام کفو کی صورت بیان کرتے ہوئے صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی     بہا رِ شریعت میں   فرماتے ہیں   : ’’جو خود مسلمان ہوا یعنی اس کے باپ دادا مسلمان نہ تھے وہ اُس کاکُفو نہیں   جس کا باپ مسلمان ہو اور جس کا صِرف باپ مسلمان ہو(وہ) اس کاکُفو نہیں   جس کا دادا بھی مسلمان ہو اور باپ دادا دوپُشْت سے اسلام ہو تو اب دوسری طرف اگرچِہ زیادہ پُشتوں   سے اسلام ہوکُفو ہیں   مگر باپ دادا کے اسلام کا اعتِبار’’ غیرِ عَرَب ‘‘میں   ہے  ۔  عَرَبی کے لئے خود مسلمان ہوا یا باپ دادا سے اسلام چلا آتا ہو سب برابر ہیں   ۔  ‘‘ (بہار شریعت حصّہ۷ ص۵۴ )

          مسلمان لڑکی کا نو مسلم سے نکاح

سُوال :  کافِر لڑکے اور مسلمان لڑکی میں   اگر عشق ہو اور لڑکا مسلمان ہو جائے پھر دونوں   کورٹ میں   جا کر آپس میں   شادی کر لیں   تو شرعاً کیا حکم ہے ؟

 جواب :  مسلمان ہو جانا مرحبا! مگر شادی کیلئے یہاں   بھی کفاء ت(یعنی کُفو ہونا) ضَروری ہے لہٰذامذکورہ صورت میں   اگر لڑکی ولی کی اجازت کے بِغیر نو مسلم سے نکاح کرے گی تو نکاح ہی نہیں   ہوگا  ۔ یہ حکم اس صورت میں   ہے جبکہ لڑکی نومسلم نہ ہو بلکہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئی ہو ۔

 (3)پیشے (کام دھندے ) میں   کفو ہونا

سُوال :   پیشے یعنی professionمیں   کفو ہونے سے کیا مراد ہے ؟

جواب :   پیشے میں  کُفو ہونے سے مراد یہ ہے کہ لڑکا ایسے پیشے (یعنی روزگار) سے وابَستہ نہ ہو جس کوعُرف میں  حقیر سمجھا جاتا ہواور اس بِنا پر لڑکی کے اولیاء عار (یعنی ذلّت)محسوس کرتے ہوں   ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت حصّہ 7 صَفْحَہ 55پرفرماتے ہیں   : جن لوگوں   کے پیشے (کام دھندے ) ذلیل سمجھے جاتے ہوں   وہ اچّھے پیشے (کام دھندے ) والوں   کے کُفو نہیں  ، مَثَلاً جوتا بنانے والے (یعنی موچی)، چمڑا پکانے والے (یعنی چَمار)، سا ئیس(یعنیگھوڑوں  کی دیکھ بھال کرنے والے اور) چرواہے یہ اُن کے کُفو نہیں   جو کپڑا بیچتے ، عِطر فروشی کرتے ،  تجارت کرتے ہیں   اور اگر خود جُوتا نہ بناتا ہو بلکہ کارخانے دار ہے کہ اس کے یہاں   لوگ نوکر ہیں  (اوروُہی نوکر) یہ کام کرتے ہیں   یا دُکاندار ہے کہ بنے ہوئے جُوتے لیتا اور بیچتا ہے تو تاجِر وغیرہ کا کُفوہے  ۔  یوہیں   اور کاموں   میں   ۔        

تاجِر کی لڑکی کا کفو ہے یا نہیں  ؟

سُوال :   جوحجّام یاموچی ہے وہ ’’ تاجِر ‘‘ کی لڑکی کاکُفو ہے یا نہیں  ؟

جواب :   نہیں   ہے  ۔

          حجّام اور موچی کا آپس میں  کُفْو ہونا

سُوال : حجّام کی لڑکی اور موچی کا لڑکا ایک دوسرے کے کُفو ہیں   یا نہیں   ؟

جواب :   جن پیشوں  (کام دھندوں  )کو حقیر سمجھا جاتا ہے ان سے وابَستہ افراد ایک دوسرے کے  کُفو  ہوتے ہیں  لہٰذا حجّام کی لڑکی اور موچی کا لڑکا ایک دوسرے کے کُفو ہیں   ۔  (ماخوذ ازرد المحتار ج۴ص ۲۰۳ )

سُوال :   تاجر کی لڑکی نے رحمانی یعنی کُمہارکے لڑکے سے بِلا اجازتِ ولی نکاح کیا لیکن لڑکے کے والِد اب اپنا پیشہ یعنی مِٹّی کے برتن وغیرہ بنانا چھوڑ کر تجارت سے وابَستہ ہیں   اوراپنا آبائی پیشہ چھوڑ چکے ہیں   کیا اس صورت میں   نکاح دُرُست ہے ؟

جواب :   اگر تو ایسا ہے کہ کسی جگہ رحمانی قوم یعنی کُمہارسے وابَستہ افراد عرصۂ دراز سے مِٹّی کے برتن بنانے چھوڑچکے ہیں   اور تجارت یا کسی اورمُعزَّز پیشے سے وابَستہ ہو چکے ہوں   اور اب لوگوں   کے دلوں   میں   یہ معزَّز سمجھے جاتے ہوں   تو نکاح دُرُست ہے ورنہ نہیں   ۔  میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں   : ’’ جُولاہے ، دھوبی، نائی اور موچی کی عار( عیب و خامی) علم کی وجہ سے خَتم نہیں   ہو تی، ہاں   جب یہ لوگ قدیم( یعنی عرصۂ دراز) سے یہ کام چھوڑ

Index