پردے کے بارے میں سوال جواب

فضیلت نہیں   ۔ اس بات کی بھی گنجائش نہیں   کہ غریب جُرم کرے تو اسے سزا ملے اور امیرجُرم کرے تو اسے چھوڑ دیا جائے تو سوال میں   اسلام کے جس فلسفے کا ذکر ہوا وہ بالکل حق ہے لیکن اس کی مُراد کیا ہے یہ ذکر کر دی گئی  ۔ اب رہا مُعامَلہ کفو میں   ذات، برادری اور پیشہ دھندا وغیرہ دیکھنے کا ۔  اوّل تو یہ کہ اِس کا اعتبار کرنے کا حکم بھی اسلام ہی نے دیا ہے رسولِ پاک، صاحِب لَولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا : ’’اپنی لڑکیوں   کانکاح نہ کرو مگرصرف کفو میں   ۔ ‘‘ (اَلسّنَنُ الکُبریلِلْبَیْہَقِیّ ج۷ ص۲۱۵ حدیث۱۳۷۶۰) 

            ترمذی شریف میں   امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا  کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے مروی ہے کہ تاجدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطان مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اِرشاد فرمایا :  اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تین چیزوں   میں   تاخیر نہ کرو (۱) نماز کا جب وقت آجائے (۲) جنازہ جب موجود ہو (۳) بے شوہر والی کے نکاح میں   جب کُفومل جائے  ۔  (تِرْمِذِی ج۲ ص۳۳۹ حدیث ۱۰۷۷)دوسری بات یہ ہے کہ چونکہ شادی ایک زندگی بھر رہنے والے بندھن کا نام ہے جس میں   ذہنی ہم آہنگی اور مزاج کے ملنے کا اعتبار اور لحاظ کرنا ایک ضَروری چیز ہے  ۔ کسی بھی جوڑے کی کامیاب زندگی کے لئے صرف یہی نہیں   کہ ان دونوں   کے درمیان اتّفاق اور ہم آہنگی ہونا ضَروری ہے بلکہ دونوں   طرف کے خاندانوں   میں   بھی ہم آہنگی ہونا ضَروری ہے  ۔ اور کفو کا اعتبار اس مقصودکے حصول میں  معاون و مدد گار ہوتاہے  ۔  اسی بنا پراس کی رعایت کرنے کا حکم ہے  ۔  

تیسری بات یہ ہے کفو کا اعتبار در حقیقت حقِّ اولیاء کی بنا پر ہے یعنی باپ داد ا وغیرہ چُونکہ سرپرست ہوتے ہیں   ۔ کفوکی رعایت نہ کیے جانے پر لوگوں   کے طعن و تشنیع کایہی لوگ ہَدَف بنتے ہیں   اورانہیں   جس عار (رسوائی) کا سامناکرناپڑتاہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں    ۔ اس بنا پر ان کو عار(ذلّت) سے بچانے کے لئے خود انہیں   کفو کا اعتبار کرنے کا حکم دیا گیا  ۔ اور اگر لڑکی ان کی اجازت کے بِغیر کہیں   اور غیر کفو میں   نکاح کر لیتی ہے تو حقِّ اولیاء کی رعایت نہ ہونے کی بِنا پر نکاح کے منعقد نہ ہونے کاحکم دیا گیا  ۔  

میاں   بیوی کا ایک دوسرے پر شک کرنا کیسا؟

سُوال : میاں   بیوی کا شک کی وجہ سے ایک دوسرے پر بدکاری کی تُہمت رکھنا کیسا؟

جواب :  کبیرہ گناہ ، حرام اور جہنَّم میں   لے جانے والا کام ہے  ۔  آج کل یہ مصیبت عام ہے  ۔ بعض لوگ شُکُوک وشُبُہات میں  پڑکربدگُمانی اور بہتان تراشی کر کے اپناآبادگھراپنے ہی ہاتھوں  برباد کربیٹھتے ہیں   ۔  شک کی بِنا پر کبھی میاں  اپنی بیوی کوزانیہ کہتا اور کبھی بیوی اپنے شوہر کو غیرعورت کے ساتھ منسوب سمجھتی ہے ، دونوں   محض شک کی وجہ سے ایک دوسرے کے سر تہمت دھرتے ، اُلجھتے اوراپنے خاندان پروہ بدنُمادھبّہ لگابیٹھتے ہیں  کہ سات سَمُندرکاپانی بھی بدنامی کے اس داغ کونہ دھو پائے ! ایسے لوگوں  کو اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  سے ڈرناچاہئے  ۔  حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے مروی ہے ، اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب عَزَّ وَجَلَّ و  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کا فرمان ِ عبرت نشان ہے : اِنَّ قَذْفَ الْمُحْصَنَۃِ یَھْدِمُ عَمَلَ مِائَۃِ سَنَۃٍ یعنی کسی پاک دامن عورت پر زِناکی تُہمت لگانا سو سال کی نیکیوں  کوبربادکرتاہے  ۔  (اَلْمُعْجَمُ الْکبِیْرلِلطَّبَرانِیّج ۳ ص ۱۶۸حدیث ۳۰۲۳)اس حدیثِ پاک سے ان شوہروں  کو عبرت حاصِل کرنی چاہئے جوصِرف شک کی بِنا پر اپنی پارسا بیویوں  پرتُہمتِ زِناباندھ بیٹھتے ہیں    ۔  نیز وہ عورَتیں   بھی عبرت حاصِل کریں  جواپنے شوہروں  کے بارے میں   طرح طرح کی باتیں   کرتی ہیں   حتّٰی کہ اُن پرزِناکاری کاالزام دھرتی ہیں   اورہر طرف اسی طرح کہتی پھرتی ہیں  ، گھرپرتووَقت دیتا نہیں   ، بس اپنی ’’رَکھاؤ ‘‘ کے پاس پڑا رہتا ہے ، سارے پیسے اُسی کو دے آتا ہے ، اُس کے ساتھ ’’کالا       مُنہ ‘‘کرتا ہے  ۔ وغیرہ ۔  

کرلے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں   ورنہ سزا ہوگی کڑی

کسی کو رَنڈی کہنا کیسا؟

سُوال :  آج کل بعض عورَتیں   غصّے میں   آ کر ایک دوسری کو’’ رَنڈی‘‘ کی گالی دیتی ہیں  ، اِس کا کیا وبال ہے ؟

جواب :  یہ بات سخت دل دُکھانے والی بَہُت ہی بڑی اور بُری گالی ہے ، اور دوزخ میں   لے جانے والی ہے  ۔

گالی کی دُنیوی سزا

            جولوگ بات بات پرگندی گالیاں   نکالنے کے عادی ہیں   وہ یہ نہ سمجھیں   کہ  ان کی کوئی پکڑہی نہیں(مُرَوَّجہ ہر گالی لکھنا ممکِن نہیں   دو مثالیں   عرض کرتا ہوں  )  مَثَلًاًاگرکسی کو وَلَدُالزِّنایازِناکی اولاد کہایاکسی پاک دامن عورت کوزانیہ کہہ دیا (جیسا کہ عورَتیں  عُمُوماًایک دوسری کوغصّے میں  آکرکہہ دیاکرتی ہیں  ) یہ سب تہمتیں   اور حرام وگناہِ کبیرہ ہیں   ۔ یہاں  یہ دلیل نہیں  چلے گی کہ’’ میں  نے تو یوں   ہی کہہ دیامیری نِیَّت یہ نہیں  تھی ۔ ‘‘یاد رکھئے ! اس میں  آخِرت کاعذاب توہے ہی، دنیامیں   بھی بعض صورَتوں  میں  اس کی سخت سزائیں   ہیں    ۔  مَثَلًاکسی مردیاعورت نے کسی پاک دامن مرد کو زنا کار یاعورت کو زانِیہ ، کہہ دیاتواسلامی عد الت میں   مقدَّمہ دائرہوجانے کی

Index