پردے کے بارے میں سوال جواب

کہ صِدّیق ( یعنی اوّل دَرَجے کے ولی) کے منَصب پر فائز تھے  ۔  شان یہ تھی کہ خانقاہ پر بادشاہ حاضِر ہو کر حاجت دریافت کرتا مگر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مَنع فرما دیتے  ۔   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ   کی طرف سے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے عبادت خانے پر انگور کی بیل لگی ہوئی تھی جو ہر روز ایک  انوکھا انگور اُگاتی تھی کہ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اُس کی طرف اپنا مبارَک ہاتھ آگے بڑھاتے تو اُس میں   سے پانی اُبل پڑتا جسے آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نوش فرمالیتے  ۔

           ایک دن مغرِب کے وَقت ایک جوان لڑکی نے دروازے پردستک دیکر کہا، اندھیرا ہو گیا ہے ، میراگھر کافی دُور ہے ، مجھے رات گزارنے کیلئے اجازت دے دیجئے  ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ترس کھا کر اسے اپنی خانقاہ میں   پناہ دیدی  ۔  رات جب گہری ہوئی تو وہ ایک دَم گلے پڑ گئی کہ میرے ساتھ’’ کالا منہ ‘‘ کرو!!! یہا ں   تک کہ معاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ اُس نے اپنے کپڑے اُتار دیئے ! آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فوراً آنکھیں   بند کر لیں   اور اُس کو کپڑے پہننے کا حکم دیا مگر وہ نہ مانی بلکہ برابر مُطالَبہ کرتی رہی  ۔

             آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے مُضْطَرِب  ( مُضْ  ۔ طَ ۔ رِب) ہو کراپنے نَفْس سے پوچھا، اے نَفْس ! تُو کیا چاہتا ہے ؟ اُس نے کہا، خداکی قسم ! میں   تو اِس نادِر موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہتا ہوں    ۔  فرمایا، تیرا ناس ہو ! کیا تُو میری عمر بھر کی عبادت ضائِع کرنے کا اُمّید وار ہے ؟ کیا تُوطالبِ عذابِ نار ہے ؟ کیا تُودوزخ کے گندھک کے لباس کا خواستگار ہے ؟ کیا تُوجہنَّم کے سانپوں   اور بچھّوؤں   کا طلبگار ہے ؟ یاد رکھ! زانی کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنَّم کے گہرے غار میں   جھونک دیا جائے گا  ۔  مگر اُس بد نِیَّت لڑکی کے ساتھ ساتھ نَفس نے بھی اپنی تحریک برابر جاری رکھی ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنے نَفس سے فرمایا :  چل پہلے تجرِبہ(تَج ۔ رِ ۔ بَہ) کر لے کہ آیا تُو دنیا کی معمولی آگ بھی برداشت کر سکتا ہے یا نہیں  ! یہ کہہ کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جلتے ہوئے چَراغ پر ہاتھ رکھ دیا! مگروہ نہ جلا ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے  جلال میں   آکر پکارا، اے آگ ! تجھے کیا ہوگیا ہے تُو کیوں   نہیں   جلاتی ؟ اِس پر آگ نے پہلے انگوٹھا جلایا ، پھر اُنگلیوں   کو پِگھلایا حتّٰی کہ ہاتھ کا سارا پنجہ کھا گئی!یہ درد انگیز منظر دیکھ کر اُس لڑکی پر ایک دم خوف طاری ہو گیا، اُس کے مُنہ سے ایک زور دار چیخ بُلند ہو کر فَضا کی پہنائیوں   میں   گم ہو گئی ، وہ دھڑام سے گری اور اُس کی رُوح قَفَسِ عُنصُری سے پرواز کر گئی ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فوراً اُس کی بَرَہْنہ   ( بَ، رَہ ۔  نَہ) لاش پر چادر اُڑھا دی ۔

            صبحِ دم ابلیس نے چِلّا کر اعلان کیا :  ’’ اِس عابِد نے فُلانہ بنتِ فُلاں   کے ساتھ رات کوزیادَتی کر کے اُس کو قتل کر دیا ہے  ۔ ‘‘ یہ خبرِ وَحشت اثر سُن کر بادشاہ آگ بگولہ ہو کر سپاہیوں   کے ساتھ عابِد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خانقاہ پرآ پہنچا  ۔  جب وہاں   سے لڑکی کی بَرَہْنہ لاش برآمد ہو گئی تو عابِد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے گلے میں   زنجیر ڈالکر گھسیٹ کر باہَر نکالا گیا اور پھر سپاہیوں   نے خانقاہ کی اِینٹ سے اِینٹ بجا دی ۔  وہ عابِدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  صبرو شِکَیبائی( شِ ۔ کے  ۔ بائی) کا دامن تھامے رہے یہاں   تک کہ اُنہوں   نے اپنا جلا ہوا ہاتھ بھی کپڑے میں   چُھپائے  رکھا اور کسی پر ظاہِر نہ ہونے دیا!اُس وَقت دستو ر یہ تھا کہ زانی کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر دیا جاتا تھا ۔  چُنانچِہ بادشاہ کے حکم سے عابدرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے سر پر آرہ رکھ کر اُن کے بدن کے دو      پَر کالے کر دیئے گئے  ۔  عابِد کی وفات ہو جانے کے بعد اللہ  عَزَّ وَجَلَّ   نے اُس عورت   کو زندہ کیا اور اُس نے از ابتِدا تا انتِہا ساری رُوداد سنائی ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہاتھ سے کپڑا ہٹایا گیا تو لڑکی کے بیان کے مطابِق واقِعی وہ جلا ہوا تھا اِس کے بعد لڑکی حسبِ سابِق پھر مُردہ ہو گئی  ۔  حیرت انگیز حقیقت سُن کر لوگوں   کے سر عقیدت سے جھک گئے اور خوش نصیب عابد کی اِس درد ناک رِحلت پر سبھی تأَسُّف وحسرت کرنے لگے  ۔ جب ان کیلئے قَبر کھودی گئی تو اُس سے مُشک وعَنبر کی لَپٹیں   آنے لگیں   ۔ جوں   ہی دونوں   کے جنازے لائے گئے تو آسمان سے صدا آنے لگی :

اِصْبِرُوا حتّٰی تُصَلِّی عَلَیْھِمَا الْملٰٓئِکۃُ

یعنی صبر کرو یہاں   تک کہ ان پر فرشتے نمازِجنازہ پڑھ لیں   ۔

            تدفین کے بعد اللہ ربُّ العٰلمینجَلَّ جَلاَ لُہٗنے خوش نصیب عابِدکی قَبْرپر چنبیلی کو اُگایا ۔  لوگوں   نے مزارِ پُر انوار پر ایک کَتْبہ آویزاں   پایا جس میں   کچھ اس طرح مضمون تھا :

           بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم ط  اللہ  عَزَّ وَجَلَّ   کی طرف سے اپنے بندے اور ولی کی طرف  ۔  میں   نے اپنے فِرِشتوں   کو جَمع فرمایا، جبرئیل  ( عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام) نے خُطبہ سنایا اور میں   نے پچاس ہزار دُلہنوں   کے ساتھ جنَّتُ الفردوس میں   اِس(اپنے ولی) کا نِکاح فرمایا ۔  میں   اپنے فرماں   برداروں   اور مُقَرَّبوں  کو ایسے ہی اِنعاموں   سے نوازتا ہوں   ۔      (بَحرُ الدُّمُوع ص۱۶۹ مُلَخَّصاً ) اللہ  عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

 

Index