عورت کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ (بغیر عذرکے )انکار کردے اور خاوَند ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ ([1]) مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یہاں رات کو بلانے کا خصوصیَّت سے ذکر اس لئے ہوا کہ عُمُوماً بیویوں کے پاس رہناسونا رات ہی کوہوتا ہے دن میں کم ورنہ اگر دن میں خاوند بلائے عورت نہ آئے تو شام تک فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں رات کی لعنت صبح کو اس لئے ختم ہو جاتی ہے کہ صبح ہونے پر خاوند کام و کاج میں لگ جاتا ہے رات کا غصّہ ختم یا کم ہو جاتا ہے ۔ (مراٰۃ ج۵ ص۹۱ ) (5) جو عورَت(بلاحاجتِ شرعی) اپنے گھر سے باہَر جائے اور اس کے شوہر کو ناگوار ہو جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہرفِرِشتہ اُس پر لعنت کرے اور جِنّ و آدَمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اُس پر لعنت کریں ۔ ([2]) (6)جو عورَت بے ضَرورتِ شَرعی(یعنی بغیر سخت تکلیف کے ) خاوَند سے طَلَاق مانگے اس پر جنّت کی خوشبو حرام ہے ۔ ([3])(7)اگر شوہَر اپنی عورت کو یہ حکم دے کہ وہ زرد رنگ کے پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سیاہ پہاڑ پر لے جائے اور سیاہ پہاڑ سے پتھر اٹھا کر سفید پہاڑ پر لے جائے تو عورت کو اپنے شوہر کا یہ حکم بھی بجا لانا چاہئے ۔ ([4]) مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یہ فرمانِ مبارک مُبالَغے کے طور پر ہے ، سیاہ وسفید پہاڑ قریب قریب نہیں ہوتے بلکہ دور دور ہوتے ہیں مقصد یہ ہے کہ اگر خاوَند ( شریعت کے دائرے میں رہ کر) مشکِل سے مشکِل کام کا بھی حکم دے تب بھی بیوی اُسے کرے ، کالے پہاڑ کا پتَّھر سفید پہاڑ پر پہنچانا سخت مشکل ہے کہ بھاری بوجھ لے کر سفر کرنا ہے ۔ ( مراٰۃ ج ۵ ص ۱۰۶ )
میاں کا حق زیادہ یا ماں باپ کا؟
سوال : اسلامی بہن پر شوہرکے حُقُوق کی کیاتفصیل ہے ؟کیا شوہر کا حق ماں باپ سے بھی بڑھ کر ہے ؟
جواب : شوہر کے حُقُوق کا بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں : ’’عورت پر مرد کا حق خاص اُمورِ مُتَعَلِّقہزَوِجِیَّت میں اللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بعد تمام حُقُوق حتّٰی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے ان اُمور میں اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے ناموس کی نگہداشت (یعنی اس کی عزت کی حفاظت )عورت پر فرضِ اَہَمّ ہے ، بے اس کے اِذن کے مَحارِم کے سوا کہیں نہیں جاسکتی اور مَحارِم کے یہاں بھی(اگر بِغیر اجازت جانا پڑ جائے تو) ماں باپ کے یہاں ہر آٹھویں دن وہ بھی صبح سے شام تک کے لئے اور بہن بھائی ، چچا، ماموں ، خالہ ، پھوپھی کے یہاں سال بھر بعد(جا سکتی ہے ) اور(بِلا اجازت) شب کو کہیں (یعنی ماں باپ کے یہاں بھی) نہیں جاسکتی ۔ (ہاں اجازت سے جہاں جانا ہو وہاں روزانہ بھی اور رات کے وقت بھی جا سکتی ہے ) نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : اگر میں کسی کو غیرِ خدا کے سَجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔ اور ایک حدیث میں ہے : اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہ کر اس کی اَیڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اورعورت اپنی زَبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کا حق ادا نہ ہو گا ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۴ ص ۳۸۰)
سُوال : ہمارے یہاں عُمُوماً شوہر کے حُقُوق تو بیان کئے جاتے ہیں مگربیوی کے حُقُوق بیان نہیں ہوتے !آیا شوہر پر بھی بیوی کے کچھ حُقُوق ہیں یا نہیں ؟
جواب : بے شک جس طرح شریعت ِمُطَہَّرہ نے بیوی پر مرد کے حُقُوق لازِم کیے ہیں اسی طرح شوہر پر بھی بیوی کے حُقُوق لاگو فرمائے ہیں مَثَلاً اس کے نان نَفقہ(یعنی کھانے پینے رہنے وغیرہ ) کی خبر گیری ، مہر کی ادائیگی، حُسنِ مُعاشَرت (یعنی اچھی طرح رہنا سہنا، حُسنِ سلوک) نیک باتوں کی تعلیم ، پردے اور شرم وحیا کی تاکیداورہر جائز بات میں اس کی دلجوئی وغیرہ کرنا یہ تمام باتیں مرد پر عورت کا حق ہیں جیساکہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰن
سے سُوال کیا گیا کہ بی بی کے حُقُوق شو ہر پر کیا ہیں ؟ فرمایا : ’’نفقہ سکنی (یعنی کھانا، لباس و مکان )، مہر ، حُسنِ مُعاشَر ت ، نیک باتوں اور حیاء وحجاب کی تعلیم وتاکید اور اس کے خلاف سے منع وتَہدِید، ہر جائز بات میں اس کی دلجوئی اور مردانِ خدا کی سنّت پر عمل کی توفیق ہو تو ماورائے مَناہیٔ شَرعیہ میں اس کی ایذا کا تَحَمُّل (تَ ۔ حَم ۔ مُل) کمالِ خیر ہے اگر چِہ یہ حقِّ زَن نہیں (یعنی جن باتوں کو شریعت نے منع کیا ہے ان میں کوئی رعایت نہ دے ، ان کے علاوہ جو مُعاملات ہیں ان میں اگر بیوی کی طرف سے کسی خلافِ مزاج بات کے سبب تکلیف پہنچے تو صبر کرنا بَہُت بڑی بھلائی ہے ۔ البتّہ یہ عورت کے حُقُوق میں سے نہیں ) (فتاوٰی رضویہ ج ۲۴ ص۳۷۱ )
سُوال : اسلامی نقطۂ نظر سے میاں بیوی کو گھر میں کس طرح رہنا چاہیئے کہ لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ ہو ؟