کے فتنے میں ڈال کر ذِلّت کی آخِری منزل تک پہنچایا ہے ، خیر گھبرا مت میں بچا سکتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تجھے میری اِطاعت کرنی ہو گی ۔ مرتا کیا نہ کرتا ! عابِدنے کہا : میں تیری ہر بات ماننے کیلئے تیّار ہوں ۔ اُس نے کہا : اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا انکار کر دے اور کافر ہوجا ۔ بد نصیب عابِد نے کہا : میں خدا کا انکار کرتا ہوں اور کافر ہوتا ہوں ۔ شیطان ایکدم غائب ہو گیا اور سپاہیوں نے فوراً اُس بد نصیب عابِد کو دار پر کھینچ لیا ۔ ( مُلَخَّص از تلبیسِ ابلیس ص۳۸ ۔ ۴۰)
دیکھا آپ نے ! شیطان کے پاس مَردوں کو برباد کرنے کیلئے سب سے بڑا اور بُرا ہتھیار ’’ عورت ‘‘ ہے ۔ بد نصیب عابداپنے پاس جوان لڑکی کو رکھنے کیلئے تیّارہو گیا اور پھر شیطان کے داؤ میں آکر کھانا اُس کے دروازے تک پہنچانے لگا اور بس یوں اُس نے شیطان کو صِرف اُنگلی پکڑائی تھی کہ اُس چالباز نے ہاتھ خود ہی پکڑ لیا اور آخِرکا ر پرَوَردگا ر عَزَّ وَجَلَّ کا انکار کروا کر اُس کو دار(یعنی سُولی ۔ وہ نوکدار لکڑی جسے زمین پر مَیخ کی طرح گاڑ کر اُس پر مجرم کی جان لیا کرتے تھے ۔ )پرکِھنچوا کر ذلّت کی موت مَروا دیا ۔ شَہو ت پرستی کفر تک لے گئی حضرتِ سیِّدُنا ابو الدَّرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے بِالکل بجا فرمایا ہے کہ گھڑی بھر کیلئے شَہوت کی تسکین طویل غم کا باعِث ہوتی ہے ۔ یقینا کوئی عام شخص ہو یانامَحرم رِشتے دار بس پردے ہی میں دونوں جہاں کی بھلائی ہے ۔ ورنہ مردو عورت کا آپَس میں بے تکلُّف ہونا بے حد خطرناک نتائج لا سکتا ہے ۔ بد نصیب عابِد والی حِکایت سے یہ درس بھی ملتا ہے کہ عورت کے فتنے کی وجہ سے قتل و غار تگری تک نوبت پَہُنچ سکتی ہے ، فریقَین کے درد ناک انجام کا سامان اور بربادیٔ ایمان کا قوی اِمکان رہتا ہے ۔
کر لے توبہ رب کی رحمت ہے بڑی قبر میں ورنہ سزا ہو گی کڑی
سُوال : آج کل تو بعض عالِم زادِیاں بھی پردے کے تقاضے پورے نہیں کرتیں !
جواب : کسی عالِم زادی یا پیر زادی کوبھی بِالفرض بے پردَگی میں مُلوَّث پائیں تو اپنی آخِرت برباد کرنے کیلئے خدا را! اسے دلیل نہ بنائیں اورنہ ہی اس کے والدِ محترم یعنی اُن عالِم دین اورجامِعِ شرائط پِیر کے بارے میں بدگُمانی فرمائیں ۔ دَوربڑا نازُک ہے ، فی زمانہ اولاد کم ہی فرماں بردار واطاعت گزار ہوتی ہے ۔ عا لِم وپِیر اپنی اولاد کوشَریعت کے دائرے میں رہ کر سمجھا سکتے ہیں ، بعض صورَتوں میں سزا بھی دے سکتے ہیں مگر جان سے نہیں مار سکتے ۔ عین ممکِن ہے کہ وہ عالم یا پیر صاحِب تَفْھِیْم( یعنی سمجھانے ) کے شَرعی تقاضے پورے کر چکے ہوں ۔
سُوال : اگر کسی عالم یا پیر کے اہلِ خانہ خلافِ شر ع حرکتیں کرتے ہیں تو آج کل اکثر لوگ عُلَماء اورمشائخ کو اس طرح سے بُرا بھلا بولنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ دنیا کو تو تبلیغ کرتے ہیں مگر اپنے گھر والوں کو نہیں سُدھارتے ۔
جواب : اُن لوگوں کی کم نصیبی ہے جوبِلا وجہ بدگمانیاں کر کے عُلماء و مشائخ کے خلاف ہو جاتے ہیں ۔ دیکھئے ! و عظ و نصیحت کرنا بِاِذْنِہٖ تعالٰی عُلَمائے کرام کا کام ہے جبکہ لوگوں کو ہدایت دینا، دلوں کو پھیر نا اور بگڑے ہوؤں کو سُدھار نا یہ ربُّ الانام عَزَّ وَجَلَّ کا کام ہے ۔ اگر کوئی عالم یا پیر بلکہ ہر وہ مسلمان جوواقِعی اپنی اولاد کی اِصلاح کی کما حقُّہٗ کوشِش نہیں کرتا بے شک خطا کار ہے مگر بِلا اجازتِ شَرعی اُسے بُرا بھلا کہنے کا ہمیں کوئی اختیار نہیں ۔ عالم ہو یا غیرِ عالم سبھی کواللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بے نیازی سے لرزاں و ترساں رہنا چاہئے ۔ اِس ضِمْن میں ایک عبرت آموز حِکایت مُلاحَظہ فرمایئے : ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنامالِک بن دِینار علیہ رحمۃ الغفّار فرماتے ہیں : مَنقُول ہے کہ بنی اِسرائیل میں ایک عالِم صاحِب اپنے گھر میں اجتِماع کر کے اس میں بیان کیا کرتے تھے ۔ ایک دن اُ ن عالِم صاحِب کے نوجوان لڑکے نے ایک خوبصورت لڑکی کی طرف اِشارہ کیا ، اُس عالِم صاحِب نے دیکھ لیا اور کہا : ’’ اے بیٹے ! صَبْر کر ۔ ‘‘ یہ کہتے ہی عالِم صاحِب اپنے تَخت سے مُنہ کے بل گر پڑے یہاں تک کہ اُن کاسر پھٹ گیا اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے اُس وَقت کے نبی (عَلَیْہِ السَّلَام )پروَحی فرمائی کہ فُلاں عالِم کو خَبر کردو کہ میں اُس کی نَسْل سے کبھی صَدِّیق(سب سے اعلیٰ دَرَجے کا ولی) پیدا نہیں کروں گا، کیا میرے لئے صِرف اتنا ہی ناراض ہونا کافی تھا کہ وہ بیٹے کو کہہ دے ، ’’اے بیٹے صَبْر کر ۔ ‘‘ (مطلب یہ کہ اپنے بیٹے پر سختی کیوں نہیں کی اور اِس بُری حَرَکت سے اُسے اچّھی طرح باز کیوں نہ رکھا ) (حِلیۃُ الاولیاء ج۲ص۴۲۲رقم۲۸۲۳مُلَخَّصاً)
سُوال : کیا عورَت رَمَضانُ الْمبارَک میں اپنے شوہر یا قابلِ اطمینان مَحرم کے ساتھ عمرے کے لئے سفر کر سکتی ہے ؟
جواب : کر سکتی ہے ۔ عُمرہ چُونکہ فرض یا واجِب نہیں اگر عورت اِس کے لئے نہ نکلے تو کسی قسم کا گُناہ بھی نہیں ۔ قابلِ توجُّہ اَمر یہ ہے کہ فی زمانہ اور وہ بھی رَمَضانُ الْمبارَک میں عورَت عُمرے کیلئے جائے اور بے پردَ گی اور غیر مَردوں کے اِختِلاط سے بھی بچی رہے یہ قریب بہ ناممکن ہے ۔ لہٰذا مشورۃً عرض ہے کہ عُمرے یا نفلی حج سے عورَت اِجْتِناب کرے ۔ ہاں جو شَرعی پردے کی مکمّل معلومات رکھتی ہے اور اس کے تمام تقاضے بھی پورے کر سکتی ہے ، غیر مردوں کے اختِلاط سے بھی بچ سکتی ہے ۔