روایات کو پیشِ نظر رکھ لیا کریں : {1}حضرتِ سیِّدُنا بریدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رَحمتِ عالَم ، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظّم ہے : ’’جو کسی شخص کی بیوی کو اس کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘‘ (مُسنَد اِمام احمد ج۹ ص ۱۶ حدیث ۲۳۰۴۱) {2} حضرتِ سیِّدُنا جابررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ نامدار، دو عالم کے مالِک و مختار ، شَہَنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے : ’’ شیطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ، پھر اپنے لشکر بھیجتا ہے ، ان لشکروں میں ابلیس کے زیادہ قریب اُس کا دَرَجہ ہوتا ہے جو سب سے زیادہ فتنے باز ہوتا ہے ۔ اس کے لشکرمیں سے ایک آ کر کہتا ہے : میں نے ایسا ایسا کیا ہے تو شیطان کہتا ہے : ’’تُونے کچھ بھی نہیں کیا ۔ ‘‘ پھر ایک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے : ’’میں نے ایک آدمی کو اس وَقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جُدائی نہیں ڈال دی ۔ ‘‘یہ سن کر ابلیس اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے : ’’تُوکتنا اچھا ہے ۔ ‘‘اور اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے ۔ (صَحِیح مُسلِم ص ۱۵۱۱حدیث۶۷ ۔ (۲۸۱۳))
شوہر بے پردَگی کا حکم دے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
سُوال : اگر شوہریا سُسرال والے یا ماں باپ پردے کے بارے میں کوئی خلافِ شرع حکم دیں تو کیا کرے ؟
جواب : اس بات میں اُن کی اِطاعت نہیں کی جائیگی کہ گناہوں کے مُعامَلات میں شوہریا والِدَین وغیرہ کا حکم ماننا ثواب کے بجائے گناہ ہے ۔ امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ، سرکارِ مدینہ، سلطانِ باقرینہ ، قرارِ قلب وسینہ ، فیض گنجینہ، صاحِبِ مُعطَّر پسینہ، باعِثِ نُزُولِ سکینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ باقرینہ ہے : ’’لَاطَاعَۃَ فِیْ مَعصِیَۃِ اللّٰہِ اِنَّمَاالطَّاعَۃُ فِی الْمَعرُوْفِ ۔ ‘‘یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت جائز نہیں اِطاعت تو صرف نیکی کے کاموں میں ہے ۔ ( مُسلِم ص ۱۰۲۳ حدیث ۱۸۴۰ )اِس حدیثِ پاک میں ارشاد فرمودہ لفظ’’مَعروف ‘‘کی تعریف بیان کرتے ہوئے مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں، ’’مَعروف وہ کام ہے جسے شریعت مَنْع نہ کرے ، معصیَت وہ کام ہے جسے شریعت مَنْع فرما دے ۔ ‘‘ (مراٰۃُ ج۵ص۳۴۰ )
بچوں کا پہلا مکتب ماں کی گود ہے
سُوال : ایک اسلامی بہن کے لئے علمِ دین کے حصول کابنیادی ذریعہ کون سا ہے ؟
جواب : ضَرورت کی قَدَرعلم ِدین حاصِل کرنا یقینا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے جیسا کہ حدیثِ پاک میں فرمایا گیا : طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسلِمٍ ۔ یعنی علم طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ (سُنَنِ اِبن ماجہ ج۱ ص۱۴۶ حدیث ۲۲۴) لہٰذا اس کے لئے سعی(یعنی کوشِش) کرنا لازِمی ہے ۔ حُصُولِ علم کے مختلف ذرائِع میں سے ایک ذَرِیعہ والِدَین بھی ہیں ، بچّے کا پہلامکتب ’’ ماں کی گود ‘‘ ہے ۔
ماں باپ کیلئے ضَروری ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح اسلامی تربیّت کریں ۔ اس ضِمن میں دوفرامِینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مُلاحَظہ کیجئے : {1}’’اپنی اولادکو تین باتیں سکھاؤ(۱) اپنے نبی ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)کی مَحَبَّت(۲) اہلِ بَیْت (رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالیٰ عَلَیْہِم اَجمَعِین)کی مَحَبَّت اور(۳) قِراء َتِ قرآن(اَلْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوْطِیّ ص۲۵حدیث ۳۱۱){2}اپنی اولاد کے ساتھ نیک سُلوک کرو اور انھیں آدابِ زندگی سکھاؤ ۔ ‘‘(سُنَنِ اِبن ماجہ ج۴ ص۱۸۹ حدیث ۳۶۷۱)
سُوال : شادی شُدہ عورت کس طرح علم حاصل کرے ؟
جواب : جتنا ممکن ہو اپنے شوہر سے علمِ دین حاصل کرے ۔ شوہر پر اس سلسلے میں بڑی بھاری ذمّے داری عائد ہوتی ہے قرآنِ مجید فُرقانِ حمید پارہ 28 سورُۃُ التَّحریم کی چھٹی آیت : { قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا ترجَمۂ کنزالایمان : اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ}کے تحت حضرتِ علّامہ جلالُ الدّین سُیُوطِی الشّافِعی علیہ رحمۃ اللّٰہِ القوی تفسیرِ دُرِّمَنثور میں نقل فرماتے ہیں کہ حضرتِ ، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم اس آیتِ مبارَکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : اس آیت کا تقاضا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ خانہ کو خیر(یعنی بھلائی )کی تعلیم دیجئے اور انہیں آداب ِ زندَگی سکھایئے ۔ (تفسیر درمنثور ج۸ ص۲۲۵)
اعلیٰ حضرت، امام اہلسنّت، مجدِّدِ دین و ملت مولیٰنا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ شریف میں شوہر پر بیوی کے حُقُوق بیان کرتے ہوئے ارشادفرماتے ہیں : ’’نَفَقہ سَکنی(یعنی گزارے کے اَخراجات و رہائش کیلئے مناسِب جگہ)، مہر، حُسنِ مُعاشَرَت(یعنی اچھی طرح رہنے سہنے کا ڈھنگ)، نیک باتوں اور حیاء و حجاب(یعنی شرم و پردے ) کی تعلیم و تاکید اور اس کے خِلاف(عمل کرنے ) سے منع التّہدِید (یعنی سمجھائے دھمکائے نیز)ہر جائز بات میں اِس کی دِلجوئی (کرے ) ‘‘ (فتاوی رضویہ ج۲۴ ص۳۷۱)