پردے کے بارے میں سوال جواب

گناہ مِٹانے کا نُسخہ

            جب بھی گناہ سر زد ہو جائے تو کوئی نیکی کر لینی چاہئے مَثَلاً دُرُود شریف ، کلمۂ طیّبہ وغیرہ پڑھ لے  ۔ چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو ذَر غِفاری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  : مجھے نصیحت کرتے ہوئے سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان ، سرورِذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا :  جب بھی تجھ سے کوئی بُرا عمل سر زد ہو جائے ، پھر تو اس کے بعد کوئی نیک کام کرلے ، تو یہ نیکی اس بُرائی کو مٹا دے گی ۔  میں   نے عرض کی :  یا رسولَ اللہ (عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) ! کیالَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُکہنا نیکیوں   میں   سے ہے ؟فرمایا :  ’’یہ توا فضل ترین نیکی ہے  ۔ ‘‘ (مُسنَد اِمام احمد  ج۸ص۱۱۳حدیث۲۱۵۴۳)

توبہ کے ارادے سے گناہ کرنا کُفر ہے

            یہ حدیثِ پاک پڑھ کر معاذَاللّٰہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ بَہُت زَبردست نُسخہ ہاتھ آ گیا !اب تو خوب گناہ کرتے رہیں   گے اورلَآ اِلٰہَ اِلَّا للّٰہُ  کہہ لیا کریں   گے تومٹ جائیں   گے  ۔ خدا کی قسم ! یہ شیطان کابَہُت بڑا او ر بُراوار ہے  ۔ اس ارادے سے گناہ کرنا کہ بعد میں   توبہ کرلوں   گا یہ اَشَدّ کبیرہ یعنی سخت ترین کبیرہ گناہ ہے  ۔  بلکہ مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان  نورُالعرفان صَفْحَہ 376 پر سورۂ یوسُف کی آیت نمبر 9 کے تَحت فرماتے ہیں   : ’’توبہ کے ارادے سے گناہ کرناکُفر ہے  ۔ ‘‘یہاں   وہ لوگ بھی عبرت حاصِل کریں  جو بعد میں   مُعافی مانگ لینے کے ارادے سے بِغیراجازت دوسروں   کی چیزیں   استِعمال کرڈالتے ہیں   ۔  توبہ کیلئے نَدامت بَہُت ضَروری ہے ، ندامت کے بھی کیا خوب انداز ہوتے ہیں   چُنانچِہ 

ایک آنکھ والا آدَمی

          حضرتِ سیِّدُنا کعبُ الْاَحباررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں  کہ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اﷲعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے زَمانے میں   ایک مرتبہ قَحط پڑا، لوگوں   نے آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی بارگاہ میں   درخواست کی، یا کلیمَ اللہ! دعاء فرمایئے تا کہ بارِش ہو  ۔  آپعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا :  میرے ساتھ پہاڑ پر چلو ۔  سب لوگ ساتھ چل پڑے تو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اِعلان فرمایا :  ’’ میرے ساتھ کوئی ایسا شخص نہ آئے جس نے کوئی گناہ کیا ہو ۔  یہ سن کر سارے لوگ واپَس چلے گئے صِرف ایک آنکھ والا ایک آدمی ساتھ چلتا رہا ۔  ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اﷲعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے ارشاد فرمایا :  کیا تم نے میری بات نہیں   سنی؟ عرض کی :  سنی ہے  ۔  فرمایا :  کیا تم بالکل بے گناہ ہو؟ عرض کی : یا کلیم اللہ ! مجھے اپنا اور کوئی جرم تو یاد نہیں   ، البتّہ ایک بات کا تذکِرہ کرتا ہوں   ، فرمایا :  وہ کیا ؟ عرض کی : ایک دن میں   نے گزر گاہ پر کسی کی قیام گاہ میں   ایک آنکھ سے جھانکا تو کوئی کھڑا تھا  ۔ کسی کے گھر میں   اس طرح جھانکنے کا مجھے بَہُت قَلَق( یعنی صدمہ) ہوا میں  خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ سے لرز اُٹھا ، مجھ پر نَدامت غالِب آئی اور جس آنکھ نے جھانکا تھا اُس کو نکال کر پھینک دیا! ارشاد فرمایئے !اگر میرا وہ عمل گناہ ہے تو میں   بھی چلا جاتا ہوں   ۔ حضرت سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اﷲعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اس کو ساتھ لے لیا ۔  پھر پہاڑ پرپَہنچ کرآپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اُس شخص سے ارشاد فرمایا :  اللہ  سے بارش کی دعا کرو!اُس نے یوں   دُعاء مانگی : ’’ یا قُدُّوسُ عزوجل! یا قُدُّوسُ عَزَّ وَجَلَّ ! تیرا خَزانہ کبھی ختم نہیں  ہوتا اور بُخْلْ تیری صِفَت نہیں  ، اپنے فضل و کرم سے ہم پر پانی برسا دے  ۔ ‘‘ فوراً بارِش ہوگئی اور دونوں   حضرات بھیگتے ہوئے پہاڑ سے واپَس تشریف لے آئے  ۔  (روضُ الرّیاحین ص۲۹۵) اللہ  عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

            معلوم ہوا کہ گناہ پر ندامت بَہُتاَھمِّیَّت رکھتی ہے  ۔  حدیثِ پاک میں   ہے :  اَلنَّدَمُ تَو بَۃٌ یعنی شرمندگی توبہ ہے  ۔ (ِاِبن ماجہ ج ۴ ص ۴۹۲ حدیث ۲۵۲) آہ! ہم دن میں   بیسیوں   ، سینکڑوں   ، ہزاروں   گناہ کرتے ہیں   مگر ندامت تو کُجا ہمیں   اِس کا احساس تک نہیں   ہوتا ۔  

کوئی ہفتہ ، کوئی دن یا کوئی گھنٹہ مرا بلکہ                             کوئی لمحہ گناہوں   سے نہیں   خالی گیا ہو گا

ندامت سے گناہوں   کا اِزالہ کچھ تو ہوجاتا

ہمیں   رونا بھی تو آتا نہیں   ہائے ! ندامت سے

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اپنے سے کم مرتبہ فرد سے دعا ء کروانا انبیاء   و مرسلینعَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلام اور بزرگانِ دین   رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المبینکا طریقہ رہاہے ، یقینا نبی کا دَرَجہ اُمّتی سے بڑا ہوتا ہے ، پھر بھی حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیم اللہعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  نے اپنے اُمّتی سے دُعا کروائی، افضل الانبیا ہونے کے باوُجُودہمارے مکی مَدَنی آقا میٹھے میٹھے مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے عُمرے کی اجازت دیتے ہوئے حضرت سیِّدُناعمرِفاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا :  اے میرے بھائی! ہمیں   بھی اپنی دُعا میں   شریک کرنا ( اِبن ماجہ ج۳ ص۴۱۱ حدیث ۲۸۹۴)  حضرتِ سیِّدُنا فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ مدینے کی گلیوں   میں   مَدَنی منّوں   سے فرماتے : بچّو! دُعا مانگو عمر بخشا جائے ‘‘خلیفۂ اعلیٰ حضرت سیِّدی و مرشِدی قطبِ مدینہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے یہاں  مدینۂ منوَّرہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً و تَکْرِیماًمیں  روزانہ میلاد شریف کی محفل ہوتی تھی میں   نے بیسیوں   مرتبہ دیکھا کہ اختِتام پر کسی نہ کسی کو دعا کروانے کا حکم فرما دیتے ، خود دعا نہ کرواتے  ۔  یہاں   مذہبی  وضع قطع والے لوگوں   اور ذمّے دار مبلّغاؤں   کیلئے کتنا پیارا درس ہے کہ کبھی کسی محفل میں   انہیں   دعاء کروانے کی سعادت نہ ملے تو رنجیدہ نہ ہوں   نہ ہی سرِ محفل دعاء کروانا اپنا حق تصوُّر کریں ۔ کوئی بھی دعا کروائے ، آمین کہہ کر خوش دلی کے ساتھ شریکِ دعا ہوں   اور دعا کی برکتیں   حاصِل کریں  ، بارگاہِ الہٰی میں   لچّھے دار الفاظ اور طُمطُراق سے مانگی ہوئی دعاء ہی قبول ہوتی ہے ایسا نہیں   وہاں   تو ٹوٹے ہوئے دل دیکھے جاتے ہیں   ۔

یوں   تو سب انھیں   کا ہے پر دل کی اگر پوچھو

یہ ٹوٹ ہوئے دل ہی خاص اُن کی کمائی ہے

(حدائقِ بخشش شریف)

 

Index