اِس حکایت سے اَظْہَرُ مِنَ الشَّمْسِ وَ اَبْیَنُ مِنَ الْاَ مْس یعنی سورج سے زیادہ روشن اور روزگزَشتہ سے زیادہ قابِلِ یقین ہو گیا کہ آج کل کے جو عاشِقانِ نادان اپنے گناہوں بھرے سڑے ہوئے عشق کو دُرُست ثابِت کرنے کیلئے معاذاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور زُلیخا کے واقِعے کو آڑ بناتے ہیں وہ بَہُت بڑی بھول کر رہے ہیں ۔ سورۂ یوسُف میں صِرف زُلَیخاکی طرف سے عشق کا تذکِرہ ہے مگر کہیں بھی کوئی اشارہ تک نہیں ملتا کہ مَعاذَاللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام بھی اُس کے عشق میں شریک تھے ۔ لہٰذا جو لوگ حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو بھی عشق میں شریک ٹھہراتے ہیں وہ اِس سے توبہ کریں ۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی شان بَہُت عظیم ہوتی ہے اور وہ گناھوں سے معصوم ہوتے ہیں ۔ ‘‘
یااللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنی مَحَبَّت اور اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سچّی پکی الفت نصیب فرما ۔ یا اللّٰہ! عَزَّ وَجَلَّ دنیا کی چاہت ہمارے دل سے نکالدے ۔ یا اللّٰہ! عَزَّ وَجَلَّ جو مسلمان گناہوں بھرے ’’ عشقِ مجازی ‘‘کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں انہیں رِہائی دیکر اپنے مَدَنی محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زُلفوں کا اَسِیربنا دے ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
مَحَبَّت غیر کی دل سے نکالو یا رسولَ اللہ
مجھے اپنا ہی دیوانہ بنا لو یارسولَ اللہ
سُوال : اگر صِنْفِ مُخالِف( مَثَلاً لڑکے پر کوئی لڑکی) عاشِقہ ہو کر پیچھے پڑ جائے تو کیا کرنا چاہئے ؟
جواب : ہرگز ہرگز اُس کی طرف مُتَوَجِّہنہیں ہونا چاہئے کہ اگر شیطان کو اُنگلی دی تو وہ ہاتھ پکڑ لیگا اور پھر گناہوں سے بچنا دشوار ہی نہیں شاید ناممکن ہو جائے گا ۔ فوراً کہیں مناسب جگہ اپنی شادی کی ترکیب بنا لی جائے کہ اِس طرح بھی اکثر عشقِ مجازی سے جان چھوٹ جاتی ہے ۔
نظر کی حفاظت کرنے والے ایک خوش نصیب خوبصورت نوجوان کی ایمان افروز حِکایت مُلا حَظہ فرمایئے چُنانچِہحُجَّۃُ الْاِسلام حضرتِ سیِّدُنا امام محمد بن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی نَقْل کرتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار انتہائی مُتّقی و پرہیز گار، بے حد خوبرو اور حسین نوجوان تھے ۔ سفرِ حج کے دَوران مقامِ اَبواء پر ایک بار اپنے خَیمے میں تنہا تشریف فرما تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رفیقِ سفر کھانے کا انتظام کرنے کیلئے گیا ہوا تھا ۔ ناگاہ ایک بُرقَع پوش اَعرابِیّہ ( یعنی دیہاتی عورت) آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے خَیمے میں داخِل ہوئی اوراُس نے چہرے سے نِقاب اُٹھادیا! اُس کا حُسن بَہُت زیادہ فِتنہ برپا کر رہا تھا ، کہنے لگی : مجھے کچھ دیجئے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ سمجھے شاید روٹی مانگ رہی ہے ۔ کہنے لگی : میں وہ چاہتی ہوں جو بیوی اپنے شوہر سے چاہتی ہے ۔
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے خوف خدا عَزَّ وَجَلَّ سے لرزتے ہوئے فرمایا : ’’ تجھے میرے پاس شیطان نے بھیجا ہے ۔ ‘‘ اتنا کہنے کے بعد آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنا سر مبارَک گُھٹنوں میں رکھا اور بَآوازِ بُلند رونے لگے ۔ یہ منظر دیکھ کر بُرقَع پوش اَعرا بِیّہ گھبرا کر تیز تیز قدم اُٹھائے خَیمے سے باہَر نکل گئی ۔ جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا رفیق آیااور دیکھا کہ رو رو کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے آنکھیں سُجا دی ہیں اور گلا بٹھادیا ہے ، تو اُس نے سببِ گرِیہ دریافْتْ کیا آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اولاً ٹالَمْٹول سے کام لیا مگر اُس کے پَیہم اِصرار پر حقیقت کا اظہار کر دیا تو وہ بھی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ فرمایا : تُم کیوں روتے ہو؟عرض کی : مجھے تو زیادہ رونا چاہئے کیوں کہ اگر آپ کی جگہ میں ہوتا تو شاید صَبْر نہ کر سکتا (یعنی شاید گناہ میں پڑ جاتا) ۔ دونوں حضرات رحمۃُ اللہِ تعالٰی عَلَیْہِما رو تے ر ہے یہاں تک کہ مکّۂ مکرّمہ زادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْماً میں حاضِر ہو گئے ۔ طواف وسَعی و غیرہ سے فارِغ ہونے کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار حطیمِ کعبہ میں چادر سے گُھٹنوں کے گرد گھیرا باندھ کر بیٹھ گئے ۔ اتنے میں اُونگھ آ گئی اور عالَمِ خواب میں پَہُنچ گئے ، ایک حُسن و جمال کے پیکر ، مُعَطّر مُعَطّر خوش لباس دراز قد بُزُرگ نظر آئے ، حضرتِ سیِّدُناسُلَیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے پوچھا : آپ کون ہیں ؟ جوابدیا : میں ( اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا نبی)یوسُف ہوں ۔ عرض کی : یا نبیَّ اللہ! عَزَّ وَجَلَّ وعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام زُلَیخا کے ساتھ آپ کا قَصّہ بھی ایک عجیب واقِعہ ہے ۔ فرمایا : مقامِ اَبواء پر اَعرابِیّہ کے ساتھ ہونے والا آپ کا واقِعہ عجیب تر ہے ۔ (اِحْیاءُالْعُلُوم ج۳ ص ۱۳۰مُلَخَّصاً) اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
دیکھا آپ نے ! حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمان بن یَسا ر عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفَّار نے خود چل کر آنے والی بُرقَع پوش اَعرابیّہ کو بھی ٹھکرا دیا بلکہ خوفِ خدا عَزَّ وَجَلَّ سے رونا دھونا مچا دیا، جس کے نتیجے میں حضرتِ سیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامنے خواب میں تشریف لا کر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی