اورفضیلت بھی زیادہ ہوجاتی ہے ۔ (شرح صحیح مسلم للنووی ج۱ص۳۹۰) حضرتِ سیِّدُناعُمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : افضل ترین عمل وہ ہے جس کیلئے نفسوں کو مجبور ہونا پڑے ۔ ( اِتحافُ السّادَۃ للزّبیدی ج ۱۱ ص ۱۰ ) حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃ الاکرم فرماتے ہیں : ’’جو عمل دنیا میں جس قَدَر دشوار ہو گا بروزِ قِیامت میزانِ عمل میں اُسی قَدَر وزْن دار ہو گا‘‘(تذکرۃ الاولیاء ص۹۵مُلَخصاً) ہاں اگر کسی کے اپنے ہی دل میں کھوٹ ہو تو کیا کہہ سکتے ہیں ! مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان نورُ الْعِرفان صَفْحَہ 318پر فرماتے ہیں : ’’ جس کو گناہ آسان معلوم ہوں اور نیک کام بھاری ، سمجھو اُس کے دل میں نِفاق ہے ، اللہ عَزَّ وَجَلَّ محفوظ رکھے ۔ ‘‘ ٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
بی بی فاطِمہ کے کفن کا بھی پردہ!
سُوال : کہتے ہیں ، بی بی فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکو ان کے کفن پر کسی غیرمَرْد کی نظر پڑنا بھی پسند نہیں تھا !
جواب : بے شک ۔ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہِری کے بعد خاتونِ جنّت ، شہزادی ٔ کونَین، حضرت سیِّدَتُنا فاطِمۃُ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاپر غمِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اِس قَدَرغَلَبہ ہوا کہ آپ کے لبوں کی مسکراہٹ ہی خَتْم ہو گئی! اپنے وِصال سے قبل صِرْف ایک ہی بارمُسکراتی دیکھی گئیں ۔ اِس کا واقِعہ کچھ یو ں ہے : حضرت سیِّدَتُنا خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو یہ تشو یش تھی کہ عُمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعدِ وفات میری کفن پوش لاش ہی پرلوگوں کی نظر نہ پڑ جائے !ایک موقع پر حضرتِ سیِّدَتُنا اَسماء بنتِ عمیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے کہا : میں نے حَبشہ میں دیکھا ہے کہ جنازے پر دَرَخْت کی شاخَیں باندھ کر ایک ڈَولی کی سی صورَت بنا کر اُس پر پردہ ڈالدیتے ہیں ۔ پھر اُنہوں نے کَھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اُس پر کپڑا تان کر سیِّدہ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو دکھایا ۔ آپ بَہُت خوش ہوئیں اور لبوں پر مسکراہٹ آگئی ۔ بس یِہی ایک مسکراہٹ تھی جو سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وصالِ ظاہِری کے بعد دیکھی گئی ۔ (جذب القلوب مترجم ص ۲۳۱)
سُبْحٰنَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ! سیّدِہ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے پردے کی بھی کیا بات ہے ! کسی نے کتنا پیارا شِعْر کہا ہے ؎
چُو زَہرا باش از مخلوق رُو پوش
کہ دَرآغوش شبّیر ے بَہ بینی
( یعنی حضرت فاطِمہ زَہْرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی طرح پرہیز گار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرتِ سیِّدُنا شبّیرِ نامدار امامِ حسینرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جیسی اولاد دیکھو)
بی بی فاطِمہ کا پُلْ صِراط پر بھی پردہ
سُوال : کیا اَہْلِ مَحشر بھی سیِّدہ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو پُلْ صِراط سے گزر تے نہیں دیکھ سکیں گے ؟
جواب : حضرت علامہ جلال الدین سیوطی شافعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْقَوِی نے امیر ُالْمُؤ مِنِین حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ الْمُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت کی ہے کہ سرکارِ دو عالم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم، نبیِّ محترم، محبوبِ ربِّ اکرم عَزَّ وَجَلَّ وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جب قیامت کا دن ہوگاتوایک مُنادی ندا کرے گا ۔ اے اَہلِ مَجمع! اپنے سر جُھکاؤ آنکھیں بند کر لو ، تاکہ حضرت ِ فاطِمہ بنتمحمّدِ مصطَفٰے ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) صِراط سے گزریں ۔ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص۵۷حدیث ۸۲۲ )
ہماری اسلامی بہنوں کو بھی خاتونِ جنّت ، شہزادی ٔ کونَین، حضرت سیِّدَتُنا فاطِمۃُ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرتِ مبارکہ سے درس حاصِل کرنا چاہئے ۔ اسلامی بہنیں دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابَستہ ہو جائینگی اور اپنے یہاں ہونے والے ہفتہ وار دعوتِ اسلامی کے اجتِماع میں شرکت فرماتی رہیں گی اور مَدَنی انعامات پر عمل کر کے فکرِ مدینہ کرتے ہوئے روزانہ رِسالہ پُر کر کے اپنی ذمّہ دار اسلامی بہن کو جمع کرواتی رہیں گی تو اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ بیڑا پار ہوگا ۔ آپ کی ذَوق افزائی کیلئے مَدَنی قافلے کی ایک بہار گوش گزار ہے ، چُنانچِہایک اسلامی بہن کے بیان کا لُبِّ لُباب ہے کہ میں نَمازوں کے مُعامَلے میں غفلت کا شکار اوراَغیار کے فیشن پر نثار تھی ۔ فلمیں ڈِرامے بڑے شوق سے دیکھا کرتی تھی ۔ ایک مرتبہ میں کسی کی دعوت پر دعوتِ اسلامی کے تین روزہ بینَ الاقوامی سنّتوں بھرے اِجتماع کی آخِری نِشَست میں اپنی ایک سَہیلی کے ساتھ شریک ہوئی ۔ وہاں دو اسلامی بہنوں نے بِغیر کسی جان پہچان کے ہمارا کافی خیال رکھا، ہمیں بڑی اپنائیت سے اپنے حلقے میں بٹھایا ۔ حُسنِ اتِّفاق سے وہ ہمارے علاقے ہی کی نکلیں انہوں نے ہمیں بدھ کے روز ہونے والے اسلامی بہنوں کے علاقائی اِجتماع میں شرکت کی دعوت بھی دی مگرہم نے کوئی خاص توجُّہ نہیں دی ۔ اس کے باوُجُودبھی وہ ہمارے گھر اجتماع کی دعوت دینے کے لئے تشریف لے آئیں ۔ اب میرا دل کچھ پَسیجا اور مُرُوَّت میں ان کامان رکھتے ہوئے ہامی