ہستیوں کے خوفِ خدا کی باتیں جب
پڑھتے سنتے ہیں تو اپنی غفلت پر واقِعی حسرت ہوتی ہے ۔ چُنانچِہ پڑھئے اورکُڑھئے :
سات صَحابہ کے رِقّت انگیز کلِمات
{1}امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک بارپرندے کو دیکھ کر فرمایا : ’’ اے پرندے ! کاش ! میں تمہاری طرح ہوتا اور مجھے انسان نہ بنایا جاتا ‘‘ {2}حضرتِ سیِّدُنا ابوذَر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا قول ہے : ’’ کاش ! میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا ‘‘ {3}امیرُ الْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے : ’’ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ مجھے وفات کے بعد اُٹھایا نہ جائے ‘‘ {4، 5} حضرتِ سیِّدُنا طَلْحہاور حضرتِ سیِّدُنا زُبَیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمافرمایا کرتے : ’’ کاش ! ہم پیدا ہی نہ ہوئے ہوتے ‘‘ {6} اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرمایا کرتیں : ’’ کاش ! میں نَسْیًامَّنْسِیًّا ( یعنی کوئی بُھولی بِسری چیز ) ہوتی ‘‘ {7} حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابنِ مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے : ’’ کاش ! میں راکھ ہوتا ۔ ‘‘ ( قُوتُ القُلوب ج۱ ص ۴۵۹ ۔ ۴۶۰ مُلَخَّصا) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
کا ش ! ایسا ہو جاتا خا ک بن کے طیبہ کی مصطَفٰے کے قد موں سے میں لپٹ گیا ہوتا
پھول بن گیا ہو تا گلشنِ مدینہ کا کاش ! ان کے صَحرا کا خار بن گیا ہوتا
میں بجا ئے انساں کے کو ئی پودا ہو تا یا نَخل بن کے طیبہ کے باغ میں کھڑا ہوتا
گلشنِ مدینہ کا کاش ! ہوتا میں سبزہ یا بطورِ تنکا ہی میں وہاں پڑا ہو تا
جاں کنی کی تکلیفیں ذَبح سے ہیں بڑھ کر کاش ! مُرغ بن کے طیبہ میں ذَبح ہو گیا ہوتا
آہ ! کثرتِ عصیا ں ہائے ! خوف دوزخ کا کا ش ! اِس جہاں کا میں نہ بشر بنا ہوتا
شور اُٹھا یہ محشر میں خُلد میں گیا عطاّرؔ
گر نہ وہ بچا تے تو نار میں گیا ہوتا
عوامی بیٹھکوں سے دُور رہنے میں عافیَّت ہے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ماحول بد سے بد ترہوتا جا رہا ہے ، زَبانوں کی لگامیں اکثر ڈِھیلی ہو چکی ہیں ، سُنّی عُلَماء کی صحبتوں سے محروم ، مَدَنی ماحول سے دُور، غیر سنجیدہ نوجوانوں بلکہ اسی طرح کے بک بک جَھک جَھک کرنے والے بَڑبَڑیئے بڑے بوڑھوں کی فُضُول بیٹھکوں سے حسّاس شخص بَہُت گھبراتا ہے ، کیوں کہ ایسی جگہوں پر زَبانیں قینچیوں کی طرح چل رہی ہوتی ہیں ، مَعاذَاللّٰہ بسا اوقاتکُفرِیَّہ کلمات بھی بک دیئے جاتے ہیں ۔ ایسی مجلسوں میں بربادیٔ ایمان کا سخت خطرہ رہتا ہے ۔ نیکی کی دعوت دینے یا کسی سخت حاجت پڑنے پر شرعی اجازت ملنے پر حَسبِ ضَرورت شرکت کرنے کے علاوہ ایسی مَحفِلوں سے دُور رہنا بے حد ضَروری ہے ۔
تُو دوزخ سے ہم کو بچا یا الہٰیعَزَّوَجَلَّ دے فِردوس بہرِ رضاؔ یا الہٰیعَزَّوَجَلَّ
بُری صحبتوں سے بچا یا الہٰیعَزَّوَجَلَّ تو کر دوست اچّھے عطا یاالہٰیعَزَّوَجَلَّ
تو ایماں پہ مجھ کو اٹھا یا الہٰیعَزَّوَجَلَّ
جہنَّم سے کر دے رِہا یاالہٰیعَزَّوَجَلَّ
تشویش سخت تشویش کی بات یہ ہے کہ ضَروریاتِ دین میں سے کسی ضَرورت ِ دینی کا اِنکار یونہی جو فعل مُنافیٔ ایمان( یعنی ایمان کی ضِد)ہے مَثَلاً بُت یا چاند سورج کو سَجدہ کرنا ایسا قَطعی کفر ہے کہ اِس میں جَہالت بھی عُذر نہیں یعنی اس کا کُفر ہونا معلوم ہو یا نہ ہو دونوں ہی صورَتوں میں کُفر ہے ۔ چُنانچِہ علامہ بد رُ الدّین عَینی حَنفی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ عمدۃُ القاری میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’ ہر اس انسان کی تکفیر کی جائے گی(یعنی اُس کو کافِر قرار دیاجائے گا) جو صریح کلمۂ کفر منہ سے نکالے یا پھر ایسا فعل کرے جو کفر کا باعث ہو اگرچِہ وہ یہ جانتا نہ ہو کہ یہ کلمہ یا فعل کفر ہے ۔ ‘‘ (عمدۃُ القاری ج۱ ص۴۰۳ )
افسوس ! کفرِیّات کی معلومات نہیں
افسوس ! ہماری غالِب اکثرِیَّت کوکُفرِیَّہ کلمات کی کما حَقُّہٗ معلومات بھی نہیں ۔ ہر ایک کواپنے بارے میں یہ خوف رکھنا چاہئے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ سے کوئی ایسا قَول یا فِعل صادِر ہو جائے جس کے سبب مَعاذَاللّٰہ ایمان برباد ہو جائے اور کیاکرایا سب اَکارت جائے ، اور مَعاذَاللّٰہ ثُمَّ مَعاذَاللّٰہ کُفر ہی پر دُنیاسے سفر ہو جائے اورپھر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنَّم مقدَّر ہو جائے ۔
کُفرِیّہ کلمات عام ہونے کے بعض اسباب