ہو سکتا ہے ؟
جواب : کیوں نہیں ، اگر کلمہ گو سے کوئی قَول یا فِعل قَطعی کُفر صادِر ہوا تووہ کافِر ہو جائے گا ۔ دیکھئے ! مالدار کو مالدار اس وقت تک ہی کہا جائے گا جب تک اس کے پاس مال و دولت ہے ۔ اِسی طرح کسی انسان کو اس وَقت تک ہی مسلمان کہیں گے جب تک اُس کاایمان سلامت ہے ۔ مسلمان ہونے کی بنیا د ہی ایمان پر ہے ۔ عَلّامَۃُالدَّہر حضرتِ سیِّدنا سَعدُ الدّین تَفتازانیقُدِّسَ سِرُّہُ الرَّبّانی ’’ شرحِ عقائدِ نسفی ‘‘ میں ایمان کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ شریعت میں ایمان ان اُمور کی تصدیق کانام ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے آئے یعنی اجمالی طورپرحضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دل سے تصدیق کرناہر اس چیز میں جو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے لائے جس کاثبوت آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے قطعی( یقینی) طور پرہو ۔ ‘‘ (شرحِ عقائد نسفی ص۱۲۶ ) میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایمان کی اسی تعریف کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ہر بات میں سچا جانے ، حُضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی حقّانِیّت کو صدقِ دل سے ماننا ایمان ہے جو اس کامُقِر(یعنی اقرار کرنے والا) ہو اسے مسلمان جانیں گے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ عَزَّوَجَلَّو رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا انکار یا تکذیب(یعنی جھٹلانا) یا توہین نہ پائی جائے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۹ ص۲۵۴)صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’ (ایمان یہ ہے کہ)سچّے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضَرور یا تِ دین سے ہیں ۔ ‘‘ ( بہارِ شریعت حصّہاوّل ص۹۲)
ضَرورتِ دینی کا منکِر کفر کے نام سے چِڑتا ہو تب بھی کافِر ہے ۔
معلوم ہواکہ مسلمان ہونے کیلئے کلمہ گو یعنی کلمہ پڑھنے والا ہونے کے ساتھ ساتھ اُن سب باتوں کی تصدیق کرنے والا ہونابھی لازِم ہے جو ضَرور یا تِ دین سے ہیں ۔ مِثال کے طور پر زَید کلمہ گو ہے ، لیکن وہ ضَروریاتِ دین میں ایک ضَرورت دینی مَثَلاً ’’ جنَّت ‘‘ کے وُجُودکا انکار کرتا ہے تو کیاوہ مسلمان رہ سکتا ہے ؟ہرگز نہیں ۔ یقینا اسے کافِرو مُرتَدہی کہا جائے گا چاہے وہ روزانہ ایک بار نہیں ایک ہزار بار کلمہ پڑھتاہو اوربظاہِر اسلام کا زبردست شیدائی بھی بنتا ہو بلکہ کفر کے نام تک سے چِڑتا ہو ۔
بربادیٔ ایمان کے امکان کا قراٰن سے ثُبوت
سُوال : کیا قراٰنِ پاک میں کہیں اس بات کا ذِکر ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد بھی کوئی کافِر ہوسکتا ہے ۔
جواب : کیوں نہیں ! ایسی کئی آیاتِ مبارَکہ ہیں ۔ مَثَلاً پارہ 2 سُورَۃُالبَقَرہ کی آیت نمبر 217میں مسلمانوں ہی سے ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِیْنِهٖ فَیَمُتْ وَ هُوَ كَافِرٌ فَاُولٰٓىٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۱۷)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور تم میں جو کوئی اپنے دین سے پھرے پھر کافر ہو کر مرے تو ان لوگوں کا کیا اَکارَت گیا دنیا میں اور آخِرت میں اور وہ دوزخ والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا ۔
کُفر کی آندھیوں سے حفاظت کی پناہ گاہیں
انسان کا دل گویا خشک اور ہلکا(سا) پَتّا ہے ، دُنیا ایک سُنسان جنگل ہے جہاں کفر ، نِفاق اورطُغیان کی تیز آندھیاں چل رہی ہیں ، جن کی وجہ سے انسانی دل کو قرار نہیں ، ہر وَقت خطرہ ہے کہ نہ معلوم کون سی ہوا اس دل کو کب اورکِدھر اُڑالے جائے ، ایسے جنگل میں ایسے ہلکے (پُھلکے ) پتّے کیلئے امان کی صِرف ایک ہی صورت ہے ، وہ یہ کہ پہاڑ کی آڑ میں آجائے یا کسی وزنی پتھر کی ما تَحتی قَبول کر لے ، حضراتِ اولیاء (رَحِمَہُمَ اللّٰہُ تعالٰی )، انبیائے عُظَام(عَلَیْہِمُ الصَّلوٰۃُ وَ السَّلام ) خُصُوصاً حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہمارے لئے پہاڑ ہیں جن کے دامن میں عالم کو پناہ ملتی ہے ۔ حضرات صَحابہ حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے وابَستہ تھے ، وہ ہر قسم کی ہوا سے محفوظ رہے ، تیز آندھیاں آئیں اپنا زور دکھا کر چلی گئیں مگر وہ ٹس سے مَس نہ ہوئے ۔ مُنافِقین نے حُضُورانور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پناہ نہ لی ، جس کا انجام یہ ہوا کہ وہ ہر کفر میں فوراً داخِل ہوجاتے تھے ۔ (تفسیرِنعیمی جلد ۴ ص۳۶۰)
آپڑے ہیں تِرے قدموں میں یہ سُن کر ہم بھی
جو تِرے قدموں میں گرتے ہیں سنبھل جاتے ہیں
کلِمہ پڑھ لیا اب جنَّت سے کو ن روک سکتا ہے !
سُوال : حدیثِ پاک میں ہے : ’’ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃ ‘‘ جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہکہہ لیا جنَّت میں جائے گا پھر کسی قول یافِعل کی وجہ سے کافِر کیسے ہوسکتا ہے ؟
جواب : مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ یہ شیطان کا بَہُت بڑا اور بُرا مَکر اوردھوکہ ہے کہ بس کلمہ پڑھ لیا اب جو چاہو کرو اور جو مَن میں آئے بَکوجنَّت میں جانے سے تمہیں کوئی نہیں روک سکتا ! میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کلمہ گو گستاخانِ خدا و مصطَفٰے کا رَدّ کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں : مسلمانو ! ذرا ہو شیار ! خبردار ! اِس مکر ِملعون کا حاصل یہ ہے کہ زَبان سیلَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہ کہہ لیناگویا خداکا بیٹا بن جانا ہے (کہ جس طرح)آدَمی کا بیٹا اگر اسے (یعنی اپنے باپ کو) گالیاں دے ، جُوتیاں مارے ، (جو)کچھ (چاہے ) کرے اس( یعنی اپنے باپ) کے بیٹے ہونے سے نکل نہیں سکتا یونہی جس نے لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ کہہ لیا اب وہ چاہے خُدا