جہاں تُو نے اعمال بھیجے ہیں ، اور اُس گھر کی طرف جوتُو نے تیّار کیا ہے ۔ ‘‘ کہا : افسوس ! میں نے نہ کوئی نیکیاں آگے بھیجی ہیں نہ ہی کوئی اچّھا گھر تیّار کیا ہے ۔ مَلَکُ الْمَوتعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے فرمایا : پھر تو تجھے اُس بھڑکتی آگ کی طرف لے جایا جائے گا جو تیرا گوشت پوست نوچ لیگی ۔ یہ کہہ کر مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے اُس کی روح قبض کر لی اور وہ مُردہ ہو کر گر پڑا ۔ گھر میں کُہرام پڑ گیا ، چیخ و پکار اور رونا دھونا مچ گیا ۔ اِس واقِعے کے راوی حضرتِ سیِّدُنا یزید رقاشی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر ان سوگواروں کو اُس کے ’’ بُرے انجام ‘‘ کا پتا چل جاتا تو اِس سے بھی زیادہ رونا دھونا مچاتے ۔ (اِحیاء العلوم ج ۵ص ۲۱۶)
موت کے وَقْت سَلْبِ ایمان کا اندیشہ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دنیا کی بے انتِہا مَحَبّت ، حلال و حرام کی پرواہ کئے بِغیردَھن کمانے کی دُھن اور گناہوں کی کثرت کی نُحُوست بسا اوقات دل سے دین و ایمان کی قدرومَنزِلَت نکال دیتی ، کُفر پر خاتِمے کا سبب بنتی اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنّم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک دیتی ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کا ارشاد ہے : عُلَمائے کرام فرماتے ہیں ، جس کو (زندگی میں ) سَلْبِ ایمان کا خوف نہ ہو نَزع کے وَقت اُس کا ایمان سَلْب ہوجانے کا شدید خطرہ ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت حصہ ۴ ص۳۹۰ ) حضرت سیِّدُنا سَہْل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : صِدّیقین رَحِمَھُمُ اللّٰہُ المُبین ہر لمحہ بُرے خاتِمے کے احساس سے خوفزدہ رہتے ہیں اور ایسوں ہی کیلئے پارہ18 سورۃُ الْمُؤْمِنون کی آیت نمبر 60 میں ار شاد فرمایا گیاہے :
وَ قُلُوْبُهُمْ وَجِلَةٌ
تر جَمۂ کنزالایمان : اور ان کے دِل ڈر رہے ہیں ۔ (اِحیاءالعلوم ج۴ ص ۲۱۱)
آہ ! سَلْبِ ایماں کا خوف کھائے جاتا ہے
کاش ! میری ماں نے ہی مجھ کونہ جنا ہوتا
’’ کُفر سے بچو ‘‘ کے آٹھ حُرُوف کی نسبت سے 8کُفرِیّات کی نشاندہی
{1}کفر کو ہلکا جاننابھی کفر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ص۳۲۴){2}اپنے کفر کا اقرار کرنے والا کافر ہے ۔ (اَیضاً ص۳۶۶)
{3}اگر کسی آدمی کو کفر کرنے کا حکم یا{4} مشورہ دیا اگرچِہ مذاق کے طور پر ہو یا{5} اس بات کا عزم کیا کہ وہ (یعنی خود)کسی کو کفر کرنے کا حکم یا {6} مشورہ دے گا تو اس پر حکم کفر ہے ، کیونکہ کفر پر راضی ہونا کفر ہے ، خواہ اپنے کافر ہونے پر راضی ہو یا{7} دوسرے کے ۔ (فتاویٰ خانیہ ج ۴ ص۴۶۶، اَلْبَحْرُ الرَّائِق ج۵ ص ۲۰۸){8} دوسرے کے کفر پر راضی ہونا اگر اپنی دشمنی و عداوت کی وجہ سے ہوتو کُفر نہیں اور اگراللہ عَزَّوَجَلَّ کی شان میں گستاخی کی نیّت سے ہو توکفر ہے ۔ (فتاوٰی تا تارخانیہ ج۵ ص ۴۶۰)
کُفْر پر مجبور کئے جانے کے بارے میں سُوال جواب
سُوال : اگر کسی کوکُفر کرنے پر مجبور کیاجائے تو وہ کیا کرے ؟
جواب : اگر کوئی شخص قتل کر دینے یا جسم کا کوئی عُضو(عُضْ ۔ وْ)کاٹ ڈالنے یا شدید مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کُفر کرنے کا حکم دے اور جس کو دھمکی دی گئی وہ جانتا ہے کہ یہ ظالم جو کچھ کہہ رہا ہے کر گزرے گا ۔ تو اب ظاہِری طورپرکلِمۂ کُفر بکنے یا بُت کو سجدہ وغیرہ کرنے کی رُخصت ہے اور دل حسبِ سابِق ایمان پر مطمئن ہونے کی صورت میں کافِر نہ ہو گا ۔ (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتاررج۹ص ۲۲۶)
اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ 14سورۂ نَحل آیت نمبر 106میں ارشاد فرماتا ہے :
مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِیْمَانِهٖۤ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ وَ قَلْبُهٗ مُطْمَىٕنٌّۢ بِالْاِیْمَانِ
تَرْجَمَۂ کنزالایمان : جو ایمان لاکر اللّٰہ (عَزَّوَجَلّ)کا مُنکِر ہو سِوا اس کے جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو ۔
مجبوری میں تَوْرِیَہ کی صورَتیں
سُوال : اِکراہِ شرعی پائے جانے کی صورت میں اگر کوئی ’’ تَورِیہ ‘‘ کرنا جانتا ہو تو کیا حکْم ہے ؟
جواب : اِس کی مُختَلف صورَتوں کا بیان کرتے ہوئیصدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’ اُس شخص کو چاہئے کہ اپنے قول وفِعل میں ’’ تَورِیَہ ‘‘ کرے یعنی اگر چِہ قَول یا فِعل کا ظاہِر کفر ہو مگر اس کی نیّت ایسی ہو کہ کفر نہ رہے مَثَلاً اس کو مجبور کیا گیا کہ مَعاذَاللّٰہ بُت کوسَجدہ کرے اور اس نے سَجدہ کیا تو یہ نیّت کرے کہ بُت کو نہیں بلکہ خدا کوسَجدہ کرتا ہوں ۔ یا مَعَاذَاللّٰہ سرکار رِسالت مَآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جناب میں گستاخی کرنے پر مجبور کیا گیا تو(گستاخی کرتے وقت) کسی دوسرے شخص کی نیّت کرے جس کا نام محمد ہو ۔ اور اگراس شخص کے دل میں تَورِیہ کا خیال آیا مگرتَورِیَہ