کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سلسلے میں   پارہ 29 سورۃُ الْقَلَم کی آیت نمبر 44، 45 میں ارشاد ہوتا ہے :  (پ ۲۹ القلم ۴۴، ۴۵ )

سَنَسْتَدْرِجُهُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۴) وَ اُمْلِیْ لَهُمْؕ-اِنَّ كَیْدِیْ مَتِیْنٌ(۴۵)

تَرْجَمَۂ کنزالایمان : قریب ہے کہ ہم انہیں   آہِستہ آہِستہ لے جائیں   گے جہاں   سے انہیں   خبر نہ ہوگی ۔ اور میں   انہیں   ڈھیل دونگا، بے شک میری خُفیہ تدبیربہت پکی ہے ۔

پارہ 4 سورہ ٔ اٰل عمران آیت 178میں   ارشاد فرمایا گیاہے :

وَ  لَا  یَحْسَبَنَّ  الَّذِیْنَ  كَفَرُوْۤا  اَنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  خَیْرٌ  لِّاَنْفُسِهِمْؕ-اِنَّمَا  نُمْلِیْ  لَهُمْ  لِیَزْدَادُوْۤا  اِثْمًاۚ-وَ  لَهُمْ  عَذَابٌ  مُّهِیْنٌ(۱۷۸) (پ۴اٰلِ عمران ۱۷۸)

تَرْجَمَۂ کنزالایمان : اور ہرگز کافر اِس گُمان میں   نہ رہیں   کہ وہ جو ہم انہیں   ڈِھیل دیتے ہیں   کچھ ان کے لئے بھلا ہے ، ہم تو اِسی لئے انہیں   ڈِھیل دیتے ہیں   کہ اور گناہ میں   بڑھیں   اور ان کے لئے ذِلّت کا عذاب ہے ۔

 ’’ اللہ کو چاہئے کہ بُروں   سے فوراً بدلہ لے  ‘‘  کہنا کیسا ؟

 سُوال :   ’’   اگراللہ  عَزَّوَجَلَّ بُرے لوگوں   کو فوراً سزا دے کر بدلہ لے لیا کرے تو کم از کم لوگ تو مُطمئِن ہوجائیں   کہ واقِعی اللہ     عَزَّوَجَلَّ  دیکھتا ہے ۔   ‘‘  ایسا کہنے والے کیلئے کیا حُکْم ہوگا ؟

جواب : اس جُملے میں  اللہ   عَزَّوَجَلَّ پر یہ  اعتِراض  ہے کہ وہ بُرے آدَمی سے فوراً بدلہ کیوں   نہیں   لے لیتا اوراللہ  عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کرنا کُفر ہے ۔

    آفت و راحت کے بارے میں   پُر حکمت رِوایت

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  انسان کو غصّے میں   یا پریشانی کے وَقت زَبان پر قابو رکھنے کی زیادہ ضَرورت ہوتی ہے کہ کہیں   کوئی ایسی شکایات یا خُرافات منہ سے نہ نکل جائیں   جس سے ایمان کے لالے پڑ جائیں  ۔ دُنیوی آفت و مصیبت مسلمان کے حق میں   اکثر بَہُت بڑی نعمت ہوتی ہے ، جیسا کہ منقول ہے : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :  جب میں   کسی بندے پر رحم فرمانا چاہتا ہوں   تو اُس کی بُرائی کا بدلہ دنیا ہی میں  دیتا ہوں  ، کبھی بیماری سے ، کبھی گھر والوں   میں   مصیبت ڈال کر، کبھی تنگی ٔ مَعاش سے ، پھر بھی اگر کچھ بچتا ہے تو مَرتے وقت اُس پر سختی کرتا ہوں   حتّٰی کہ جب وہ مجھ سے ملاقات کرتا ہے تو گناہوں   سے ایسا پاک ہوتا ہے جیسا کہ اُس دن تھا جس دن کہ اُس کی ماں   نے اُسے جنا تھا ۔  اور مجھے اپنی عزّت و جلال کی قسم کہ میں   جس بندے کو عذاب دینے کا ارادہ رکھتا ہوں   اُس کو اُس کی ہر نیکی کا بدلہ دُنیا ہی میں   دیتا ہوں   ، کبھی جسم کی صحّت سے ، کبھی فراخیِٔ رِزق سے ، کبھی اَہل وعِیال کی خوش حالی سے ، پھر بھی اگر کچھ رہ جاتا ہے تو مَرتے وَقت اُس پر آسانی کر دی جاتی ہے حتّٰی کہ جب مجھ سے ملتا ہے تو اُس کی نیکیوں   میں   سے کچھ بھی نہیں   رہتا کہ وہ نارِ جہنَّم سے بچ سکے ۔  (شرحُ الصّدور ص۲۸)

آسائشوں   پر مت پُھولو !

            گاڑیوں  ، عمارتوں  ، دولتوں  ، صِحّتوں  اور طرح طرح کی نعمتوں   کی اپنے اوپر کثرتوں   کو دیکھ کر ڈر جانا چاہئے کہ کہیں   یہ دنیا میں   نیکیوں   کی جزا نہ ہو اور غُربتوں   ، آفتوں  ، بیماریوں   اور طرح طرح کی مصیبتوں   کا اپنے اوپر سلسلہ دیکھ کر صبر کرنا اور دل بڑا رکھنا چاہئے کہ ہو سکتا ہے یہ آخِرت کی راحت سامانیوں   کاپَیش خَیمہ ہو ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ہم دونوں   جہاں   کی بھلائیاں   طلب کرتے ہیں    ؎

ڈرتھا کہ عِصیاں  کی سزا ، اب ہو گی یا روزِ جزا

دی اُن کی رَحمت نے صدا ، یہ بھی نہیں   وہ بھی نہیں

 ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ گنہگاروں   کی نہیں   سنتا ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال :   یہ کہنا کیساکہ ’’  اللہ عَزَّوَجَلَّ ہم گنہگاروں   کی نہیں  سُنتا ۔  ‘‘

جواب :  ’’  نہیں   سنتا  ‘‘  یہ جُملہ ہمارے یہاں    ’’ قَبول نہیں   فرماتا  ‘‘  کے معنیٰ میں   بھی بولا جاتا ہے ۔  لہٰذایہاں  اِس جُملہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ  تَبَارَکَ وتَعَا لٰی ہم گنہگاروں   کی دُعا قَبول نہیں   فرماتا اور یہ جملہ  پارہ 24 سورۃ المؤمن آیت 60 کے حصّے  ’’   اُدْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ-  ‘‘  (ترجَمۂ کنزالایمان  : مجھ سے دعا کرو میں   قبول کروں   گا)کے خلاف ہونے کی وجہ سے گمراہی پر مشتمل ہے اس سے توبہ کرنا فرض ہے اور آئندہ اِس طرح کی باتوں   سے اِحتِراز کرنا(یعنی بچنا)ضَروری ہے ۔ ہاں   ، اگر اللّٰہ تَبَارَکَ وَتَعَا لٰیپر  اعتِراض  کرنے کی نیّت سے کہا تو صریح کفر ہے ۔  

 ’’ اللّٰہ نے ساری مصیبتیں  مجھ پر ڈالدی ہیں   ‘‘  کہنا

سُوال : پَرِیشانیوں   سے تنگ آکر اگر کوئی یوں   بک دے :  ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّنے مُجھے آج تک دیا ہی کیا ہے ؟ خُود تو آسمان پر بیٹھا حُکومت کررہا ہے اور ساری مُصیبتیں   اورپَرِیشانیاں   میرے گھر میں   ڈال رکھی ہیں  ، زندگی کے کسی بھی حصّے میں   مجھے خوشی نہیں   ملی ۔  ‘‘  توکیا حُکْم ہے ؟

جواب :  اس میں   واضِح طور پراللّٰہُ ربُّ العٰلمینعَزَّوَجَلَّکی توہین کے ساتھ ساتھ اُس پر اِعتِراض کرنا اور اُس کیلئے مکان ماننا پایا جارہا ہے ۔ یہ کلام کُفْرِیّات سے بھرپور ہے ۔  کہنے والا کافِر ہو گیا ۔

ہر ایک کو امتِحان کیلئے تیّار رَہنا چاہئے

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ایمان کے ساتھ زِندَگی گزارنے والا ہی کامیاب ہے ، بڑا نازُک مُعامَلہ ہے ، شیطان ہر وَقت ایمان کی گھات میں   لگا رَہتا ہے ۔  مصیبت آنے پر صَبْر کرتے ہوئے ہر حال میں  ربِّ ذوالجلال  عَزَّوَجَلَّ کی رِضا پرراضی رَہنا چاہئے ۔ پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّ ہمارا مالِک ومُختار ہے ۔  اللہ  عَزَّوَجَلَّ   جسے چاہے بے حساب جنّت میں   داخِل فرمائے اور

Index