کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

اس کے اکثر کاموں   کو ہرگز نہ سمجھ سکے گا(کہ) یہ سیٹھ اُتنا اِدراک (شُعُور)ہی نہیں   رکھتا ۔  مگر عقل سے حصّہ ہے تو(سیٹھ ہونے کے باوُجُود) اُس(نوکر) پر مُعتَرِض بھی نہ ہو گا ۔ جان لے گا کہ یہ اس کا م کا استاد و حکیم ہے ، میرا خیال وہاں   تک نہیں   پہنچ سکتا ۔ غَرَض اپنی فہم(عقل) کو قاصِر(ناقص) جانے گا نہ کہ اُس(نوکر) کی حکمت کو ۔  پھر ربُّ الاَْرْباب ، حکیم ِحقیقی ، عالِمُ السِّرِّ وَ الْخَفِی عَزََّ جَلا لُہٗ کے اَسرار (یعنی بَھیدوں  ) میں   خَوض(غور) کرنا اور جو سمجھ میں   نہ آئے اُس پر مُعتَرِض ہونا اگر بے دینی نہیں  (تو) جُنُون(یعنی پاگل پن) ہے اگرجُنُون نہیں   (تو)بے  دینی ہے ۔ وَالعِیاذُ بِاللّٰہ ربِّ الْعٰلمین ۔ (اور اللہ عَزَّوَجَلَّ   کی پناہ جو تمام جہانوں   کا پروردگار ہے )

 ’’ مِقناطیس قطب تارہ کی طرف کیو ں   !  ‘‘  یہ  اعتِراض  کوئی بھی نہیں   کرتا

            اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ مزید فرماتے ہیں   : اے عزیز !  کسی بات کو حق جاننے کیلئے اس کی حقیقت جاننی لازِم نہیں   ہوتی، دنیا جانتی ہے کہ مِقناطیس لوہے کو کھینچتا ہے اور مِقناطیسی قوّت دیا ہوا لوہا ستارۂ قُطب کی طرف توجُّہ کرتا ہے ۔  (یعنی مِقناطیس کی خاصیّت یہ ہے کہ اُس کارُخ قُطب تارہ کی طرف ہی رہتا ہے )مگر اس کی حقیقت و کُنہ(تہ) کوئی نہیں   بتا سکتا کہ اِس خاکی(زَمینی) لوہے اور اُس افلاکی (آسمانی) ستارے میں   کہ یہاں   سے کروڑوں   میل دُور ہے باہم کیا اُلفت ؟ اور کیونکر اُسے اس کی جِہَت(یعنی سَمت) کا شُعُور(سمجھ) ہے ؟ اور ایک یِہی نہیں   عالم میں   ہزاروں   ایسے عَجائب ہیں   کہ بڑے بڑے فَلاسفہ خاک چھان کر مر گئے اور اُن کی کُنہ(یعنی تہ) نہ پائی ۔ ۔ ۔  پھر اس(نہ جاننے ) سے اُن باتوں  (یعنی اُن ہزاروں   عجائبات) کا انکار نہیں   ہو سکتا ۔ آدَمی اپنی جان ہی کو(یعنی اپنے ہی بارے میں  ) بتائے (کہ) وہ کیا شے ہے جسے یہ ’’  میں   ‘‘  کہتا ہے ، اور کیا چیز جب نکل جاتی ہے تو مِٹّی کا ڈھیر بے حِسّ و حرکت رہ جاتا ہے ! ( فتاوٰی رضویہ ج۲۹ ص ۲۹۳ تا ۲۹۶)

 ’’ اللہ نے میری قسمت اچّھی نہیں   بنائی  ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال : اگر کوئی یوں   کہے :  ’’  میں   بہت پَرِیشان ہوں  ، پتانہیں   ، کیا خطا مجھ سے ایسی ہوئی ہے ، جس کی مجھ کو سزا مِل رہی ہے ! میں   نے دیکھا، اللہ  عَزَّوَجَلَّ مجھ سے بالکل خوش نہیں   اوراللہ عَزَّوَجَلَّ نے میری قِسْمت ابھی تک تو ذرا بھی اچّھی نہیں   بنائی ؟ ‘‘ اس بارے میں   کیا حکْم ہے ؟

جواب :  یہ جُملہ کہ  ’’  پتا نہیں   ، کیا خطا مجھ سے ایسی ہوئی ہے جس کی مجھ کو سزامِل رہی ہے  ‘‘   بُہت بُراہے ایسا ہر گز ہرگز نہ کہا جائے کیونکہ ہم گُناہوں   سے معصوم نہیں   ، ہم توخطاؤں   میں   سرتاپا ڈوبے ہوئے ہیں  ۔ گُناہوں   سے مَعْصُوْم صِرْف اَنبِیَاء و فرِشتے علیہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہیں   ۔ مَدَنی مشورہ ہے ، فَیضانِ سنّت (جلد اوّل )صَفْحہ  1032تا1042 کا مُطالَعہ فرما لیجئے ۔ اوردوسرا جُملہ کہ  ’’ میں  نے دیکھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  (  اِلَخ) ۔ اس میں   اللّٰہعَزَّوَجَلّپر  اعتِراض  کا پہلو نُمایاں   ہے  جو کہ کُفْر ہے ۔ اور  اعتِراض  ہی مقصود ہو توصریح کُفْر ہے  ۔

 ’’ اللہ نے میرے نصیب میں   پریشانی کیوں   رکھی ہے  ‘‘  کہنا کیسا ؟

 سُوال : اللہ تعالیٰ نے آخِر میرے ہی نصیب میں   اتنی پریشانی کیوں   رکھی ہے ؟ یہ جُملہ کہنا کیساہے ؟

جواب :  اس جُملے میں  اللہ تعالیٰ پر اعتِراض  کا پہلو نُمایاں   ہے جو کہ کُفْر  ہے ۔ اور  اعتِراض  ہی مقصود ہو توصریح کُفْر ہے ۔

شہوت پرستی بھی بُرے خاتمے کا سبب ہے

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! زَبان کو قابو میں   رکھنا بے حدضَروری ہے ، کہیں   زَبان کی بے احتیاطی ہمیشہ کیلئے دوزخ میں   نہ جھونک دے ۔  اپنے آپ کو ہمیشہ گناہوں   سے بچاتے رَہنا چاہئے کہ گناہوں   کی نُحُوست سے ایمان برباد ہونے کا خطرہ رہتا ہے ۔  یاد رکھئے ! شہوَت پرستی بھی بُرے خاتِمے کا ایک سبب ہے لہٰذا جن کوغَیر عورَتوں   کے خیالات تنگ کریں   یا اَمْرَدِ حسین(یعنی پُر کشِش لڑکے )سے شہوَت کے باوُجُود دوستی، نزدیکی یا اُن کو لذَّت کے ساتھ دیکھنے ، لپٹا لینے ، مذاق مسخری و کھینچا تانی کرنے ، گلے میں   ہاتھ ڈالنے کی خواہِش ہو وہ اس حِکایت کو پڑھ لیا کریں   یا ذِہن میں   دوہرا لیا کریں   :

دواَمْرَد پسند مؤَذِّنوں   کی  بربادی

             دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 472 صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ بیانات ِعطّاریہ حصّۂ دُوُم  ‘‘  صَفْحَہ 123 تا127پر ہے :  حضرت ِ سیِّدُناعبد اللہ  بن احمد مُؤَذِّن رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں  : میں  طوافِ کعبہ میں   مشغول تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو غِلاف ِکعبہ سے لِپٹ کر ایک ہی دُعا کی تکرار کررہا تھا :  ’’ یااللّٰہعَزَّوَجَلَّ مجھے دنیا سے مسلمان ہی رُخصت کرنا ۔  ‘‘ میں   نے اُس سے پوچھا  : اِس کے علاوہ کوئی اور دُعا کیوں   نہیں   مانگتے ؟ اُس نے کہا : میرے دوبھائی تھے ، بڑا بھائی چالیس سال تک مسجِدمیں  بِلا مُعاوَضہ اذان دیتا رہا ۔ جب اُس کی موت کا وقت آیا تو اُس نے قراٰنِ پاک مانگا، ہم نے اُسے دیا تاکہ اس سے بَرَکتیں   حاصِل کرے ، مگر قراٰن شریف ہاتھ میں   لے کر وہ کہنے لگا :  ’’ تم سب گواہ ہوجاؤکہ میں   قراٰن کے تمام اِعتِقادات واَحکامات سے بیزاری ظاہِر کرتا اورنَصرانی (کرسچین)مذہب اختیار کرتا ہوں  ۔  ‘‘  پھر وہ مرگیا ۔ اس کے بعد دوسرے بھائی نے تیس برس تک مسجِد میں   فی سبیلِ اللّٰہعَزَّوَجَلَّ اذان دی ۔  مگراُس نے بھی آخِری وَقت نَصرانی(یعنی کرسچین ) ہونے کا اقرار کیا اور مرگیا ۔  لہٰذا میں   اپنے خاتِمہ کے بارے میں   بے حد فِکر مندہوں   اور ہر وقت خاتِمہ بِالخیر کی دعا مانگتا رہتا ہوں  ۔ حضرتِ سیِّدنا عبد اللہ بن احمد مُؤَذِّنرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے اُس سے اِسْتِفْسار فرمایا، کہ تمہارے دونوں   بھائی آخر ایسا کون ساگناہ کرتے تھے ؟ اُس نے بتایا،  ’’ وہ غیر عورَتوں   میں   دلچسپی لیتے تھے اور اَمردوں   (یعنی بے ریش لڑکوں  ) کو (شہوت سے )  دیکھتے  تھے ۔  ‘‘ (الرَّوضُ الفائق ص۱۷

Index