اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظّم ہے : ’’ تین شخصوں کے حق کو ہلکا نہ جانے گا مگر مُنافِق کُھلا مُنافِق، ایک وہ جسے اسلام میں بُڑھاپا آیا ، دوسراعِلم والا، تیسرا عادِل بادشاہ ۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْرج۸ص۲۰۲ حدیث ۷۸۱۹)
عُلَمائے دین کی توہین سنگین جُرم ہے
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰنفتاوٰی رضویہ شریف جلد 23 صَفْحَہ 649 پر عُلَماء دین کی توہین کرنے سیمُتَعَلِّق فرماتے ہیں : ’’ سخت حرام سخت گناہ اَشَدّ کبیرہ ، عالمِ دین سُنّی صَحیحُ الْعَقیدہ کہ لوگوں کو حق کی طرف بلائے اور حق بات بتائے محمدٌ رَّسولُ اللّٰہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نائِب ہے ۔ اس کی تحقیر(توہین) مَعاذَ اللّٰہ محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی توہین ہے اور محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جناب میں گستاخی مُوجِبِ لعنتِ الہٰی و عذابِ الیم ہے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ)
شیطان لوگوں کو عالموں سے کیوں دُور کرتا ہے ؟
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! شیطان لوگوں کے دلوں سے علماء دین کی وَقعت(وَقْ ۔ عَت) نکالنا چاہتا ہے تاکہ عُلَماء کرام جب کسی بات کو اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ اورمصطَفٰے جانِ رحمتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نا فرمانی و مَعصیَّت قرار دیں تو لوگ ان کی نصیحَت پر کان نہ دھریں اور بے دھڑک شیطانی کاموں میں لگے رہیں ۔
شیطان ماں باپ کے روپ میں !
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! ہمیں شیطان کے وار کو ناکام بناتے ہوئے ہر دم باعمل عالموں کے دامن سے وابسَتہ رہنا چاہئے تا کہ دینی معلومات ہوتی رہیں ورنہ شیطان کہیں ایمان چھیننے میں کامیاب نہ ہو جائے ۔ عُلمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں : ایمان کا مُعامَلہ بے حد حسّاس ہے ، عقائد و نظریات بگڑ جانے یا الفاظِ کفر کی تحسین یا افعالِ اِرتداد کے اِرتِکاب کے سبب ایمان ضائِع ہو گیا تو کیا ہو گا ! سیِّدُنا امام قُرطبی علیہ ر حمۃُ اللّٰہِ القوی نقل فرماتے ہیں کہ (سکرات کے وقت) شیطان دائیں جانِب سے آتا ہے اور یہودی دین کا اچّھا ہونا بیان کرتا ہے اور اس کے باپ کا روپ دھار کریہودی مذہب قَبول کرنے کیلئے اُکساتا ہے اگر قَبول نہ کرے تو پھر شیطان بائیں جانب سے آتا ہے اور اس کی ماں کا روپ دھار کر عیسائیوں (کرسچینوں ) کا مذہب قَبول کرنے کی دعوت دیتا ہے اور بعض رِوایات میں یہ ہے کہ شیطان ایسے موقَع پر پانی کا پِیالہ لے کر آتا ہے کہ اگرتُو وہ کہہ دے جو میں کہہ رہا ہوں اوردعوتِ کفر دے رہا ہوتا ہے (یعنی تو اسلام چھوڑ کر کافرہوجائے ) تو پیالہ تجھے پیش کر دوں گا ۔ (بریقۃ محمودیۃ فی شرح طریقۃ محمدیۃ ج۱ص۷۵)
یااللّٰہعَزَّوَجَلَّ ! ہم تیری رحمت کے بھکاری اور تجھ سے ایمان کی حفاظت کے طلبگار ہیں ۔ محبوب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا صدقہ نزع میں رسوا نہ کرنا ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
عطّار ہے ایماں کی حفاظت کا سوالی
خالی نہیں جائے گا یہ دربارِ نبی سے
عُلَماء کے بِغیر اسلام کا نظام نہیں چل سکتا
عُلَماء ِاسلام کا کام تواللّٰہُربُّ الْاَنامعَزَّوَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول، شَہنشاہِ انبیائے کرام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیغام کو درست طریقے پرعام فرماناہے ، عُلَمائے دین تو شریعت کے قوانین کے مُحافِظین ہیں ۔ عُلمائے کرام تو دینِ اسلام کے احکام کے مطابِق ہی کسی چیز کو حلال یا حرام، کُفر یا اِسلام قرار دینے کے پابند ہیں ۔ اپنی طرف سے ہرگز کچھ نہیں کہتے ، یِہی ان کا منصب ہے ۔ یقیناعُلَمائے دین ہی کی برکتوں ، کوشِشوں ، علمی کاوِشوں اور مساعیٔ تبلیغ سے گلزارِ اسلام کی بہاریں ہیں ۔ عُلَمائے حق ہی کی بدولت گلشنِ اسلام ہر ا بھرا لہلہارہا ہے ۔ اگرعُلَماء ہی مَعدوم(یعنی ختم) ہوجائیں تو کُفّار کو اسلام کی دعوت کون دے گا ؟ کفّار کی طرف سے اٹھائے جانے والے اِعتِراضات کے مُسکِت (مُس ۔ کِت یعنی خاموش کر دینے والے ) جوابات کیسے دیئے جاسکیں گے ؟عامَۃُ المسلمین کو ارکانِ اسلام کی تعلیم دینے کی ترکیب کیسے بنے گی ؟انہیں قراٰن و حدیث کے رُمُوز(یعنی بھیدوں ) سے کون آشنا (واقِف)کرے گا ؟
عُلَماء کی بارگاہ میں حاضِری توبہ کی توفیق کا ذریعہ ۔ ۔ ۔ ۔
عُلَمائے رَبّانِیِّین(رَبّ ۔ نِی ۔ یِیْن) کی بارگاہوں میں حاضِری تو بہ کی توفیق ملنے اور ایمان کی حِفاظت کیلئے کُڑھنے کا سبب بن سکتی ہے چُنانچِہ ایک عظیم تابِعی بُزُرگ و زبردست عالمِ دین حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مُسَیّب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی بارگاہ میں حاضِر ہو کر کسی نے عرض کی کہ ’’ میں نے خواب میں کعبۂ مُشرَّفہ کے اوپر خود کو نَماز پڑھتے دیکھا ۔ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : خدا کا خوف کر ! شاید تودینِ اسلام سے پھر گیا ہے ! اُس نے عرض کی : میں توبہ کرتا ہوں کیونکہ تقریباً دو ماہ سے ’’ فِرقۂ قَدِریّہ ‘‘ (یعنی تقدیر کا انکار کرنے والے فِرقے ) کے عقائد پر ہوں ۔ (خوابو ں کی تعبیر ص ۱۴۵)
کیا جاہل کے ایمان پر خاتمے کی امّید نہیں ؟
سُوال : اِس کتاب کی ابتِداء میں آپ نے کُفریہ کلمات اور دیگر فرض عُلُوم سیکھنے پرکافی زَور دیا ہے مگر اب اس نفسا نفسی کے دَور میں عموماً لوگوں کے پاس اتنا وَقت توہوتا نہیں کہ وہ کسی دینی مدرَسہ میں داخِلہ لے کر عالِم کورس کرے ، تو کیا ایسی صورت میں اب جاہِل کے ایمان پر خاتِمہ ہونے کی کوئی اُمّید ہی نہیں ؟