کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مَراحِل سے گزر رہی تھی کہ آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی وفاتِ ظاہِری کا وَقْت بھی قریب آ گیا ۔  آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام  نے دُعا مانگی :  یااللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ !  میری وفات ان جنّات پر ظاہِر نہ فرما اور وہ برابر عمارت کی تکمیل میں   مصروفِ عمل رہیں   اور ان سبھوں   کو جو علمِ غیب کا دعویٰ ہے وہ بھی باطِل ٹھہرجائے ۔ یہ دُعا مانگ کر آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام محراب میں   داخِل ہو گئے اور حسبِ عادت اپنا عَصا مبارَک ٹیک کر عبادت میں   کھڑے ہو گئے اور اِسی حالت میں   آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی وفات ہو گئی ۔  مگر مزدور جنّا ت  برابر کام میں   مصروف رہے ۔  عرصۂ دراز تک آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلامکااسی حالت میں   رَہنا جِنّات کے لیے کوئی نئی بات نہیں   تھی، کیونکہ وہ بارہادیکھ چکے تھے کہ آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام ایک ایک ماہ بلکہ کبھی کبھی دو دو ماہ برابر عبادت میں   کھڑے رہا کرتے ہیں   ۔ اَلغَرَض ظاہِری انتِقال کے بعد ایک سال تک آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہالصَّلٰوۃ والسَّلام اپنی مبارَک لاٹھی سے ٹیک لگائے کھڑے رہے یہاں   تک کہ بحکمِ الہٰی عَزَّوَجَلَّدِیمک نے آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلامکے عَصا شریف (یعنی مبارک لاٹھی ) کو کھا لیا اور یوں   آپعَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا جسمِ نازنین زمین پر تشریف لے آیا ۔  اب جنّات  اور انسانوں   کو آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی ظاہِری وفات کا علم ہوا ۔ (مُلَخَّص از عجائبُ القراٰن ص ۱۸۹ ۔ ۱۹۲، خزائن العرفان ص۷۷۳ ۔ ۷۷۴) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔   اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

حیاتُ الْاَنبِیاء

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اِس قراٰنی حِکایت سے درس ملاکہ حضراتِ انبِیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے مُقدَّس اَجسام بعدِ رِحلَت بھی سلامت رہتے ہیں  ، بعدِوفاتقَبْر کی مِٹّی انہیں   نہیں  کھا سکتی ۔  ’’ سُنَنِ اِبنِ ماجَہ ‘‘  میں   ہے :  سرکارِ  مدینۂ منوَّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرَّمہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ معظَّم ہے :  ’’ بے شک اللہ  عَزَّوَجَلَّ نے زمین پر حرام فرما دیا ہے کہ وہ انبِیاء (عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام )کے جسموں   کو کھائے  ۔ اللہ  (عَزَّوَجَلَّ) کے نبی زندہ ہیں   اور ان کو روزی دی جاتی ہے ۔  ‘‘   ( اِبنِ ماجہ حدیث۱۶۳۷ ج ۲ص۲۹۱)

دو انبِیائے کرام لبّیک پڑھ رہے تھے

             انبیاء عَلَیْہِم الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  اپنے مزاراتِ طیّبات سے نکل کر زمین وآسمان کے اطراف میں   آتے جاتے اورتَصرُّف فرماتے ہیں   ۔ چنانچِہ  ’’  صحیح مسلم ‘‘  میں   ہے :  اللہ  کے مَحبوب ، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوبعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   وادیٔ اَزْرَق سے گزرے تو آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے فرمایا  : یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں   نے بتایا :  یہ وادیٔ اَزْرَق ہے  ۔ آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے فرمایا  : گویا میں   موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام  کو ثَنِیَّہ(گھاٹی ) سے اترتے ہوئے دیکھتا ہوں   اور وہ بُلند آواز سے تَلْبِیَہ (یعنی لَبَّیْکَ) کہہ رہے ہیں  ۔ پھر آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ایک گھاٹی ہَرْ شٰی پر تشریف لائے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے فرمایا :  یہ کون سی گھاٹی ہے ؟ لوگوں   نے عرض کی :  یہ  ہَرْ شٰی گھاٹی ہے ۔  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے فرمایا : گویا کہ میں   یونُس (عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلام ) کو دیکھ رہا ہوں   وہ ایک طاقت ورسُرخ اونٹنی پر سُوار ہیں   جس کی لگام کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ہے ، اُنہوں   نے اُونی جُبّہ پہنا ہوا ہے اور وہ  لَبَّیْکَ   پڑھتے ہوئے جا رہے ہیں   ۔ (صَحِیح مُسلِم  ص۱۰۳ حدیث ۲۶۸، ۲۶۹)

جِنّات کا گُزَشتہ حالات بتا دینا

سُوال :  بے شک قراٰنِ پاک سے ثابِت ہے کہ جِنّات علمِ غیب نہیں   رکھتے ۔ مگر بعض اوقات  ’’  حاضِرات کے جِنّات ‘‘  گُزَشتہ حالات دُرُست بتا دیتے ہیں   ، اِس میں   کیا راز ہے ؟

جواب :  یقینا بسا اوقات شریر جِنّات گزَشتہ حالات کی دُرُست اِطِّلاعات دینے میں   کامیاب ہو جاتے ہیں   مَثَلاً آپ کو دس سال قَبل سخت بخار آ گیا تھا یا آپ 15 سال قَبل فُلاں   قبرِستان میں   ڈر گئے تھے یا آپ کے بچّے کو سر پر چوٹ آ گئی تھی وغیرہ وغیرہ ۔ آپ کے بارے میں   گزَشتہ حالات بتانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ باتیں   وہ ’’  حاضِری کا جِنّ ‘‘  آپ کے ہمزاد سے پوچھ لیتا ہے ۔  تو ہمزاد کے ذَرِیعے ملی ہوئی اِطِّلاع کو ’’  علمِ غیب  ‘‘  نہیں   کہتے ۔  ہر شخص کے ساتھ ایک ہمزاد بھی پیدا ہوتا ہے جو کہ کافِر جِنّ ہو تا ہے اور وہ ہر وقت ساتھ رہنے کی وجہ سے اس طرح کی باتیں   دیکھتا رہتا ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فریمسین یعنی جادو گروں   کے ایک مخصوص ٹَولے کے بارے میں   فرماتے ہیں   : ایک شیطان عَلانیہ اس (جادوگر) کے ساتھ رہتا ہے جسے وہ دیکھتا ہے اور اس سے باتیں   کرتا ہے اور وہ (شیطان) اسے یہ راز ظاہر کرنے سے ہر وَقت مانِع رہتا ہے اور یہی سبب ہے کہ فریمسین(یعنی اُنِھیں   مخصوص جادوگروں   میں   کا کوئی فرد) اگر شہر کے ایک کَنارے سے گزرے تو دوسرے (جادوگر)کو جو   شہر کے دوسرے کَنارے پر ہے اطِّلاع ہو جاتی ہے ، کیونکہ ایک   کا شیطان دوسرے کے شیطان کو اطِلّاع کر دیتا ہے ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔  (فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص۲۲۳)

ہمزاد کون ہوتا ہے ؟

سُوال :  ہمزاد کے بارے میں   کچھ تفصیلات بتا دیجئے ۔

جواب :  میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رحمۃُ الرَّحمٰنفتاوٰی رضویہ جلد21 صَفْحَہ 216

Index