کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

دیں   کہ یہ واقِعی طاقت نہیں   رکھتا تو اسے بِلاختنہ ہی رہنے دیا جائے ۔ (خلاصۃ الفتاوٰی ج۴ص۳۴۰)

اگر نَو مسلِم خَتنہ نہ کروائے تو ؟

سُوال :  اگر کوئی بالِغ نو مسلِم ختنہ کرنا نہ جانتا ہو اور طبیب سے کروانے کیلئے تیّار نہ ہو تو کیا اُسے اس پر مجبور کیا جاسکتاہے ؟

جواب :  اُس کو اَمرٌ بِالْمَعرُوف کیا جائے یعنی نیکی کی دعوت دی جائے اگر وہ تیّار نہ ہو تو کسی قسم کی سختی نہ کی جائے ۔ خَتنہ سنّت ہے ۔  بالِغ نَو مسلِم کا طبیب سے خَتنہ کروانے میں   ویسے بھی عُلَماء کااِختِلاف ہے ۔  ختنہ نہ کرنے یا نہ کروانے سے اُس کے ایمان میں   کوئی فرق نہیں   پڑے گا، وہ بد ستور مسلمان ہے ۔

نَو مسلِم کے لئے اِبتِدائی معلومات کے ذَرائِع

سُوال :  نو مسلم کو ابتِدائی اسلامی معلومات کس طرح فراہَم کی جائیں  ؟

جواب : کسی سُنّی عالِمِ دین کی خدمت میں   پیش کیا جائے جو اس کو بُنیادی عقائد سکھائے ۔  اگر اُردویاانگلش  جانتا ہو تو خلیلُ الْعُلَماء حضرتِ علّامہ مولیٰنا مفتی محمدخلیل خان بَرَکاتی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی کتاب ہمارا سلام (مکمّل ) اُس کو پڑھنے کیلئے پیش کر دیجئے ۔  یا اُس میں   سے پڑھ پڑھ کر اُس کو اسلامی عقائد سمجھائیے اور ثواب کمائیے ۔  اُس کو مسلمان کرنے کے بعد تربیّت کے بِغیر چھوڑ دینا مناسب نہیں  ۔ مفتیٔ دعوتِ اسلامی الحاج مفتی محمد فاروق عطاری علیہ رحمۃ الباری کی آواز میں   مکتبۃ المدینہ کی طرف سے جاری کردہ نصابِ شریعت کورس کی کیسٹیں   نو مسلم بلکہ ہر مسلم کیلئے معلومات کا بے بہا خزانہ ہیں  ۔ دعوتِ اسلامی کے مَدَنی مرکز میں  63 دن کے مَدَنی تربیتی کورس میں   شُمُولیت بھی ہر مسلم بالخصوص نو مسلم کیلئے نہایت ہی مفید ہے ۔  نیز وُضو، غسل اورنَماز کا طریقہ معلوم کرنے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتابنَماز کے اَحکام کامُطالَعہ ہر نئے پُرانے مسلمان کیلئے اِنتِہائی ضَروری ہے ۔

کیا نَو مسلِم کو اسلامی  تعلیم بھی دینی ہو گی ؟

سُوال : جو نیا مسلمان ہوا کیا اُس کو اسلامی تعلیمات سے بھی رُوشناس کرانا ہوگا ؟

جواب :  جی ہاں  ۔ اِس ضِمن میں   فتاوٰی  رضویہ شریف جلد 24 صَفْحَہ 146 پر دیئے گئے ایک سُوال کا خُلاصہ ہے :  ’’  جس ملک کے نو مسلم اسلامی تعلیمات سے بے خبر ہوں   ، کفّار کی صحبت کی وجہ سے کُفرو اسلام کی بَہُت ساری باتوں   کا فرق بھی نہ جانتے ہوں   ان کو پہلے پہل کیا سکھایا جائے ؟ عقائدِ اسلامیہ و احکاماتِ شرعیہ کی تعلیم دی جائے یا تصوُّف کی باریکیاں   وغیرہ سمجھائی جائیں  ؟ ‘‘ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰننے جو جواب ارشاد فرمایااِس میں   یہ بھی ہے : بَدِیہیاتِ دینیہ (بَدی ۔ ہی ۔ یاتِ ۔ دِینی ۔ یَہ یعنی وہ مشہور ومعروف دینی اَحکام جن کو عوام وخواص سب جانتے ہوں  ) سے ہے کہ اَوَّلاً عقائدِ اسلام و سنَّت پھر احکامِ صلوٰۃ و طہارت وغیرہا ضَروریاتِ شرعِیَّہ سیکھنا سکھانا فرض ہے اور انھیں   چھوڑ کر دوسرے کسی مستحب و پسندیدہ علم میں   بھی وَقت ضائِع کرنا حرام ۔ (فتاوٰی رضویہ  ج ۲۴ ص۱۴۶، ۱۵۸ ) معلوم ہوا ایسے نو مسلموں   کو عقائد و احکام اورضَروریاتِ شرعِیّہ سکھانا فرض ہے اوریِہی خود بھی سیکھنا فرض ۔  تَصوُّف کی باریکیاں   تو آج کل بڑے بڑوں   کو سمجھ میں   نہیں   آتیں  ! مزید صَفحَہ 159پر فرماتے ہیں   : انھیں   ابھی سیدھے سیدھے اَحکام سمجھنے کے لالے ہیں   ان مُتَشابَہات (اور پیچیدہ باتوں  )کو کون سمجھے گا !  غَرَض اس کا اثر ضَرور ا ن کا بگڑنا فتنے میں   پڑنا زِندیق ، مُرتد یا ادنیٰ دَرَجہ گمراہ بد دین ہو جانا ہو گا و بس ۔  حدیث میں   ہے رَسُوْلُ اللہ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں  : یعنی جب تُو کسی قوم کے آگے وہ بات بیان کرے گا جس تک اُن کی عقلیں   نہ پہنچیں   توضَرور وہ ان میں   کسی پرفِتنہ ہو گی ۔  (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص۴۷۹حدیث ۷۸۳۸ ، تاریخ دمشق لابن عَساکِر ج۳۸ ص ۳۵۶ )

             ایک اورمقام پر حُضورِ پُرنور ، شاہِ غیور، شافِعِ یومُ النُّشُورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں  : اُمِرْنَا اَن نُّکَلِّمَ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ یعنی ہم کو حکم دیا گیا کہ ہم لوگوں   سے ان کی عقلوں   کے مطابق کلام (گفتگو)کریں  ۔ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوْطِیّ  ج۲ ص۱۷۵ حدیث ۴۶۶۷)  وارد ہے :   کَلِّمِ النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِہِمْ  یعنی لوگوں   سے ان کی سمجھ کے مطابق بات کی جائے ۔ (مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِیْح للقاری ، ج۹ص ۳۷۳ تحتَ الحدیث ۵۴۷۱)

            لہٰذا ہر ایک کے ساتھ اُس کے ظَرف کے مطابِق بات کرنی چاہئے کہ گہری باتیں   اُس کو تشویش میں   ڈالتیں   بلکہ راہ سے بھٹکا سکتی ہیں  ۔ ہر مُقرِّر و مُبلِّغ کیلئے بھی اِس میں   یہ مَہکتا مَدَنی پھول ہے کہ عوام کے آگے اَدَق(یعنی پیچیدہ) مضامین چَھیڑنے کے بجائے حتَّی الامکان آسان زَبان میں   اُن کے کام کی وہ باتیں   بیان کی جائیں   جن کو وہ بآسانی سمجھ سکیں   ۔

کیا کافر کیلئے کسی کے ہاتھ پر مسلمان ہونا ضَروری ہے ؟

سُوال :  کیاکافِر کیلئے یہ ضَروری ہے کہ کسی نہ کسی مسلمان کے ہاتھ پر توبہ کر کے مسلمان ہو ؟

جواب :  ایمان لانے کیلئے کسی مسلمان کے ہاتھ ہی پر توبہ کرنا شَرط نہیں    ۔

 البتّہ اپنے اسلام کا اظہار کرے ۔ صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : اصل ایمان صِرف تصدیق کانام ہے اعمالِ بدن تو اصلاً جُزوِایمان نہیں   ۔ رہا اقرار اس میں   تفصیل یہ ہے کہ اگر تصدیق کے بعد اس کے اظہار کا موقع نہ ملا تو عِندَ اللہعَزَّوَجَلَّ  (یعنی اللہعَزَّوَجَلَّ کے نزدیک ) مُؤْمِن ہے اور اگر موقع ملا اور اس سے مُطالَبہ کیا گیا (مَثَلاً پوچھا گیا ، کیا آپ مسلمان ہیں   ؟) اور اقرار نہ کیاتو کافِر ہے اور اگر مُطالَبہ نہ کیا گیا تو (چُونکہ کسی کو معلوم ہی نہیں   کہ یہ مسلمان ہوچکا ہے لہٰذا ) اَحکامِ دنیا میں  کافِر سمجھا جائے گا نہ اس کے جنازے کی نَماز پڑھیں  گے نہ مسلمانوں   کے قبرِستان میں   دفن کریں   گے مگر عِندَ اللہعَزَّوَجَلَّ (یعنی اللہعَزَّوَجَلَّ  کے نزدیک )  مؤمن ہے اگر کوئی اَمرخِلافِ اسلام ظاہِر نہ کیا ہو ۔        (بہارِ شریعت حصّہ اوّل ص ۹۳ )

 

Index