کرتا ہوں ۔ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ (اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں محمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاللہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول ہیں )‘ ‘ اِس طرح مخصوص کُفر سے توبہ بھی ہو گئی اور تجدیدِ ایمان بھی ۔ اگرمَعَاذاللہ عَزَّوَجَلَّکئی کُفرِیّات بکے ہوں اور یاد نہ ہو کہ کیا کیا بکا ہے تویوں کہے : ’’ یااللّٰہعَزَّوَجَلَّ ! مجھ سے جو جو کُفرِیّات
صادِر ہوئے ہیں میں ان سے توبہ کرتا ہوں ۔ ‘‘ پھر کلِمہ پڑھ لے ۔ (اگر کلمہ شریف کا ترجَمہ معلوم ہے تو زَبان سے تر جَمہ دُہرانے کی حاجت نہیں ) اگریہ معلوم ہی نہیں کہ کُفر بکا بھی ہے یا نہیں تب بھی اگر احتیاطاً توبہ کرنا چاہیں تو اسطرح کہئے : ’’ یااللّٰہعَزَّوَجَلَّ ! اگر مجھ سے کوئی کُفر ہو گیا ہو تو میں اُس سے توبہ کرتا ہوں ۔ ‘‘ یہ کہنے کے بعد کلِمہ پڑھ لیجئے ۔
سُوال : تجدیدِنکاح کیسے کیا جائے ؟
جواب : تَجدیدِ نِکاح کا معنیٰ ہے : ’’ نئے مَہر سے نیا نِکاح کرنا ۔ ‘‘ اِس کیلئے لوگوں کو اِکٹھّا کرنا ضَروری نہیں ۔ نِکاح نام ہے اِیجاب و قَبول کا ۔ ہاں بوقتِ نِکا ح بطورِ گواہ کم ازکم دو مَرد مسلمان یا ایک مَرد مسلمان اور دو مسلمان عورَتوں کا حاضِرہونا لازِمی ہے ۔ خُطبۂ نِکاح شرط نہیں بلکہ مُسْتَحَبہے ۔ خُطبہ یاد نہ ہوتو اَعُوْذُ باللہ اور بِسمِ اللہ شریف کے بعد سورۂ فاتِحہ بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ کم ازکم دس درہم یعنی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی(موجودہ وزن کے حساب سے 30 گرام 618 مِلی گرام چاندی )یا اُس کی رقم مہَر واجِب ہے ۔ مَثَلاً آپ نے پاکستانی 786 روپے اُدھار مہَر کی نیّت کر لی ہے (مگر یہ دیکھ لیجئے کہ مہر مقرر کرتے وقت مذکورہ چاندی کی قیمت 786 پاکستانی روپے سے زائد تو نہیں ) تو ا ب مذکورہ گواہوں کی موجودَگی میں آپ ’’ اِیجاب ‘‘ کیجئے یعنی عورت سے کہیے : ’’ میں نے 786 پاکستانی روپے مہَر کے بدلے آپ سے نکاح کیا ۔ ‘‘ عورَت کہے : ’’ میں نے قَبول کیا ۔ ‘‘ نکاح ہو گیا ۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عورت ہی خُطبہ یا سورۂ فاتِحہ پڑھ کر ’’ اِیجاب ‘‘ کرے اور مَرد کہے : ’’ میں نے قَبول کیا ‘‘ ، نِکاح ہو گیا ۔ بعدِ نکاح اگر عورت چاہے تو مَہرمُعاف بھی کر سکتی ہے ۔ مگر مَرد بِلاحاجتِ شرعی عورت سے مَہر مُعاف کرنے کا سُوال نہ کرے ۔
حالتِ اِرتدِاد میں ہونے والے نِکاح کا مسئلہ
سُوال : اگرکسی نے صَریح کفر بکا اور مُرتَد ہو گیا اور پھر اِسی حال میں نِکاح بھی کیا اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب : مُرتد ہو جانے کے بعد کوئی شخص اگر چِہ بظاہِر نیک راستے پر آگیا ، داڑھی ، زلفوں ، عمامے اور سنّتوں بھرے لباس سے بھی آراستہ ہو گیا مگر اُس نے اپنے اُس کفر سے توبہ و تجدیدِ ایمان نہ کیا تو بدستور مُرتد ہے ، توبہ و تجدیدِ ایمان سے پہلے جو بھی نیک عمل کیا وہ مقبول نہیں ، بیعت کی تونہ ہوئی، یہاں تک کہ اگر نِکاح بھی کیا تو نہ ہوا ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 11 صَفْحَہ 153 پر فرماتے ہیں : مَعاذَاللّٰہ اگر مرد یا عورت نے پیش از نکاح ( یعنی نکاح سے قبل) کُفرِصریح کا ارتِکاب کیا تھا اور بے توبہ و ( نئے سرے سے قبولِ) اسلام اُن کا نِکاح کیا گیا تو قَطعاً نکاح باطِل ، اور اس سے جو اولاد ہوگی وَلَدُالزِّنا، اسی طرح اگر بعدِ نکاح اُن میں کوئی مَعاذَاللّٰہ مُرتد ہو گیا اور اس کے بعد کے جِماع سے اولاد ہوئی تو وُہ بھی حرامی ہوگی ۔ لہٰذا کسی نے اِرتدِاد کے بعد اگر نِکاح کیا ہو اورنِکاح کے بعد اگر چِہ توبہ و تجدید ِ ایمان کر چکا ہو توبھی اب نئے سِرے سے نِکاح کرنا ہوگا ۔ اِس کیلئے دھوم دھام شرط نہیں ، گھر کی چار دیواری میں بھی نکاح ہو سکتا ہے ۔ اِسکا طریقہ آگے گزر چکا ہے ۔ ہاں اگر لوگوں کے سامنے مُرتَد ہوا تھا اور پھر اِسی حال میں نِکاح کیا تھا تو پھر سب کے سامنے توبہ و تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح کرے ۔ یا اُن لوگوں کو اپنی توبہ و تجدیدِ ایمان و تجدیدِ نکاح پر مُطَّلع کرے ۔ حدیث پاک میں ہے : سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان ، سرورِذیشان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت بنیاد ہے : ’’ جب تم کوئی گناہ کرو تو توبہ کرلو، اَلسِّرُّبِالسِّرِّ وَالْعَلَانِیَہُ بِالْعَلانِیَۃیعنی پوشیدہ گناہ کی توبہ پوشیدہ اورعَلانیہ گناہ کی توبہ عَلانیہ ۔ ‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر ج۲۰ ص ۱۵۹ حدیث ۳۳۱ )
عَلانیہ توبہ کا اَہَم ترین مَسْئَلہ
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰنعَلانیہ گناہ کی عَلانیہ توبہ کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فتاوٰی رضویہ شریف جلد 21 صَفْحَہ 146پرفرماتے ہیں : سَو ( 100) کے سامنے گُناہ کیا اور ایک گوشہ میں دو (2)کے آگے اظہار ِ توبہ کر دیا تو اس کا اِشتِہارمِثلِ اِشتِہارِ گناہ نہ ہوا، اور وہ(عَلانیہ توبہ کے ) فوائد کہ مطلوب تھے پُورے نہ ہوئے بلکہ حقیقۃً وہ مرض کہ باعثِ اعلان تھا توبہ میں کمیٔ اِعلان (یعنی ناقص اعلان) پر بھی وُہی باعِث ہے کہ گناہ تو دل کھول کر مجمعِ کثیر میں کرلیا اور(اب انہیں لوگوں کے سامنے ) اپنی خطا پر اقرار کرتے عار(یعنی شرم) آتی ہے ۔ صَفْحَہ 144پر فرماتے ہیں : گناہِ عَلانیہ دوہرا گناہ ہے کہ اعلانِ گناہ (بھی) گناہ بلکہ اس گناہ سے بھی بدتر گناہ ہے ۔ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : ’’ میری سب اُمّت عافیّت میں ہے سو ا اُن کے جوگناہ آشکار ا (یعنی علی الاعلان)کرتے ہیں ۔ ‘‘ (بُخاری ج۴ ص ۱۱۸ حدیث۶۰۶۹) نیز حدیث میں ہے : رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا عذاب بندوں سے دُور رہے گاجبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کو ڈھانپیں اور چھپائیں گے پھر جب عَلانیہ گناہ اور(کھلَّم کُھلّا) نافرمانیاں کریں گے تو وہ عذاب کے مُستحق اور سزا وار ہو جائینگے ۔ ‘‘ (اَلْفِرْدَوْس بمأثور الْخَطّاب ج۵ ص ۹۶ حدیث ۷۵۷۸)