سُوال : مَلَکُ الْمَوت کو بُرا بھلا کہنا کیساہے ؟
جواب : بہارِ شریعت میں ہے : دُشمن و مَبْغُوض(یعنی جس سے بُغض ہواُس ) کو دیکھ کر یہ کہنا : مَلَکُ الْمَوت آگئے یاکہا : ’’ اسے وَیسا ہی دشمن جانتا ہوں جیسا مَلَکُ الْمَوت کو ‘‘ اس میں اگر مَلَکُ الْمَوت کو بُرا کہنا (مقصود ) ہے تو کُفْرہے اور مَوت کی نا پسندیدگی کی بِنا پر ہے تو کُفْر نہیں ۔ ‘‘ یوں ہی جبرئیلعَلَیْہِ السَّلَام یا میکائیلعَلَیْہِ السَّلَام یا کسی فِرِشتے کو جو عیب لگائے یا توہین کرے کافِر ہے ۔ (ماخوذ از بہارِ شریعت حصہ۹، ص۱۸۲ )
حُضُور مفتیٔ اعظم ھند کی حکایت
کہا جاتا ہے : ایک بار کسی جلسہ میں تاجدارِ اہلسنّت ، شہزادۂ اعلیٰ حضرت حُضور مفتیٔ اعظم ہند حضرت مولیٰنا شاہ محمد مصطَفیٰ رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن مَنچ پر تشر یف فرما تھے ۔ ایک شُعلہ بیا ن مُقرِّر نے خُفیہ پولیس کو مخاطَب کرتے ہوئے جوشِ خِطابت میں کہہ دیا : ’’ اگر حُکومت کے کِراماً کاتِبِین موجود ہیں تو لکھ لیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ سنتے ہی حُضور مفتیٔ اعظم علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکرم نے فوراً اُس کو ٹوکا ا ور توبہ کا حکم دیا ۔ اس پر اُس مقرِّر نے فوراً بیان روک کر علَیالاِْعلان توبہ کی ۔ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! حُضور مفتیٔ اعظم علیہ رَحمَۃُ اللّٰہِ الاکرم کے ٹوکنے کا سبب یہ تھا کہ مقرِّر نے گورنمنٹ کی ’’ خُفیہ پولیس ‘‘ کو مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّکراماً کاتبین یعنی بندوں کے اعمال لکھنے والے بُزُرگ اور معصوم فِرِشتوں کے نام سے موسُوم کر دیا !
پیکررُشد وہِدایت مفتیٔ اعظم( رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کی ذات
عامِلِ قراٰن وسنّت مفتیٔ اعظم (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ) کی ذات
’’ اِس بات کا تو میرے فرِشتوں کو بھی علم نہیں ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ’’ اس بات کا تو میرے فرِشتوں کو بھی علم نہیں ‘‘ کہنا کہیں کفر تو نہیں ؟
جواب : یہ کفر نہیں ہے ۔ یہ فرِشتوں کی تَوہین نہیں ، یہ اُردو زَبان کا مُحاوَرہ ہے ۔ کہنے والے کامَنشایہ ہوتا ہے کہ یہ بات تو میرے وَہم و گُمان میں بھی نہیں ، یا اِس کے بارے میں میں نے کبھی سوچا تک نہیں ، اگر میں نے اِس سلسلے میں ذِہن کے اندر بھی کوئی ترکیب بنائی ہوتی تو ’’ کِراماً کاتِبِین ‘‘ کو یقینا معلوم ہو جاتا وغیرہ ۔ یہ بات ذِہن میں رکھئے کہ عُمُوماً فرِشتوں کو حسبِ حاجت اُن کے شُعبے کیمُتَعَلِّق علمِ غیب تَفویض کیا جاتا ہے ۔ مَثَلاً بادَلوں کو چلانے اور بارِش برسانے والے ملائکہ کو اِن امُور کے مُتَعَلِّق علمِ غیب دیا جاتا ہے ۔ اِسی طرح جَنِین یعنی ماں کے رِحم میں جو بچّہ ہوتا ہے اُس کے پیدا ہونے نہ ہونے ، اُس کے رِزق وغیرہ حتّٰی کے قَبر کے مقام تک کا علم اُس پر مامور فرِشتوں کو عنایت فرمایا جاتا ہے ۔ اِسی طرح مَلَکُ الْمَوت سیِّدُنا عِزرائیلعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلاماور ان کے مُعاوِنین ملائکہ کوتمام ذُوالاَْرواح کی اموات کے اوقات و مقامات سے باخبر کیا جاتا ہے ۔ یوں ہی مُحافِظین اعمال لکھنے والوں کو ۔ پارہ30 سورۃُ الانفِطار آیت نمبر 10 تا 12 میں ارشادِ ربُّ العباد ہے :
وَ اِنَّ عَلَیْكُمْ لَحٰفِظِیْنَۙ(۱۰)كِرَامًا كَاتِبِیْنَۙ(۱۱)یَعْلَمُوْنَ مَا تَفْعَلُوْنَ(۱۲)
ترجَمۂ کنزالایمان : اور بیشک تم پر نگہبان (مقرّر) ہیں ، مُعزَّز لکھنے وا لے ، جانتے ہیں جو کچھ تم کرو ۔
کیا کِراماً کاتِبین دلوں کا حال بھی جان لیتے ہیں ؟
سُوال : کیا کراماً کاتبین دل کی نیّتوں کو بھی جان لیتے اور اُن کو تحریر فرما لیتے ہیں ؟
جواب : جی ہاں ۔ اِس ضمن میں حدیثِ قُدسی مُلا حظہ فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہوا کہ مدینے کے سلطانِ، سردارِ دوجہان، رحمتِ عالمیان ، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رحمٰن عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کافرمانِ عالیشان ہے : اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے : ’’ جب میرا بندہ کسی گناہ کا ارادہ کرے اور اُس پر عمل نہ کرے تو اس کو مت لکھو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو اُس کا ایک گناہ لکھ لو ۔ اور اگر وہ نیکی کا ارادہ کرے اور اس پر عمل نہ کرے تو ایک نیکی لکھ لو اور اگر وہ اس پر عمل کرے تو دس نیکیاں لکھ لو ۔ ‘‘ ایک اور روایت کے مطابق اللہ کے پیارے حبیب ، حبیبِ لبیب، طبیبوں کے طبیب ، عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ملائِکہ عرض کرتے ہیں : پروردگار ! تیرا بندہ گناہ کرنے کا ارادہ کر رہا ہے ۔ حالانکہاللہ عَزَّوَجَلَّ کواس بات پر خوب بصیرت ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے : ’’ اس کا انتِظار کرو، اگر یہ اس گناہ کو کرے تو اس کاگناہ لکھو اور اگر اس کو ترک کر دے تو اس کی ایک نیکی لکھ لو، کیونکہ اس نے میری وجہ سے اِس گناہ کو ترک کیا ہے ۔ ‘‘ (صَحِیح مُسلِم ص۷۹ حدیث ۲۰۳، ۲۰۵)
گناہ کاارادہ ترک کرنے پر نیکی ملنے کی صورت
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! اِس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عطا سے کراماً کاتِبین دلوں کی نیّتیں بھی جان لیتے ہیں ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کتنا بڑا کرم ہے کہ نیکی کی صِرف نیّت کرنے پر ایک نیکی کاثواب مل جاتا ہے اور اگر بندہ گناہ کینیّت کرے تو کچھ نہیں لکھا جاتا حتّٰی کہ اگر گناہ کا ارادہ ترک کر دے تو اِس پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔ یہاں یہ بات یاد رہے کہ برائی کا ارادہ ترک کرنے والے کو نیکی اسی صورت میں ملتی ہے جبکہ خوفِ خدا کی وجہ سے ایسا کرے اگر کسی مجبوری کے تحت گناہ سے باز رہا تو اُس کو نیکی نہیں ملی گی ۔ (ماخوذاز تفہیم البخاری ج۹ ص ۷۸۲)