میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ، لواطت کے حلال ہونے کے قائل کے بارے میں ارشادفرماتے ہیں : ’’ حل لواطت کا قائل کافرہے ‘‘ ( فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۶۹۴)
’’ کاش ! بد فِعلی جائز ہوتی ‘‘ کہنا کفر ہے
سُوال : اُس شخص کے لئے کیا حکم ہے جو جائز تو نہ کہے مگریہ تمنّا کر ے کہ کاش ! بد فِعلی جائز ہوتی ۔
جواب : یہ تمنّا بھی کُفر ہے ۔ اَلْبَحْرُ الرّائِق جلد 5 صَفْحَہ 208 پر ہے : جو حرام کام کبھی حلال نہ ہوئے اُن کے بارے میں حلال ہونے کی تمناّ کرنا کُفرہے مَثَلاً تمنّا کرناکہ کاش ! ظلم، زِنا اور قتلِ ناحق حلال ہوتے ۔
اَجْنَبِیَّہکا بوسہ لینے کو جائز کہنا
سُوال : غیرمَحرَمہ کا بوسہ لینے کو جائز سمجھے اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب : ایسا بے حیا شخص کافر ہے ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام فرماتے ہیں : جو اجنبی عورت کا بوسہ لینا جائز سمجھے وہ کافِر ہے ۔ (مِنَحُ الرَّوضص ۵۰۹)
گُناہوں کے ذَریعے د ین کی خدمت
سُوال : بعض لوگ دین کا کام کرنے کیلئے ناجائز ذرائِع استعمال کرتے ہیں اگر کوئی اعتِراض کرے تو کہتے ہیں کہ آج کل دین کاکام اِسی طرح ہوتا ہے ۔ ان کا یہ جواب کہا ں تک دُرست ہے ؟
جواب : صدرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّریقہ، حضرتِ علّامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : ایک شخص گناہ کرتا ہے ، لوگوں نے اسے منع کیا، تو کہنے لگا : ’’ اسلام کا کام اِسی طرح کرنا چاہئے ‘‘ یعنی جو گناہ و مَعصِیَّت(یعنی اللہ و رسول کی نافرمانی) کو اسلام کہتا ہے وہ کافِر ہے ۔ (بہار شریعت حصّہ ۹ ص ۱۷۹)
مَعصِیَّت کے ذریعے دین کی خدمت باعثِ ہلاکت ہے
یہاں اُن لوگوں کیلئے کافی درسِ عبرت ہے جو دین کے کام کے نام پر دھمکیاں دے کر زبردستی ’’ چندہ ‘‘ نکلواتے ، ہڑتالیں کر کے جبراً مسلمانوں کی دُکانیں بند کرواتے ، گاڑیاں اور اِملاک جلاتے ، مسلمانوں میں خوف و ہِراس پھیلاتے ، بسوں پر پتَّھر برساتے ، اس طرح کی حرکات سے عام مسلمانوں پر طرح طرح سے ظلم ڈھاتے اور پھر مَعاذَ اللّٰہعَزَّوَجَلَّیہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ کیا کریں حالات ہی ایسے ہیں ، اگر ہم یوں نہ کریں تو دین کا کام نہیں ہو سکتا ! یادرکھئے ! اللّٰہُ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّبے نیاز ہے اُسے اِس بات کی قَطْعاً حاجت نہیں کہ کوئی دین کا کام کرے ہی کرے ۔ ہم خود اُس کے محتاج ہیں لہٰذا ہمیں ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ اور شاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکامات کی روشنی ہی میں عبادات اور دین کی خدمات بجا لانی چاہئیں ۔ بِالفرض کوئی مَعصِیَّت کے ذَرِیعے دین کی خدمت میں ظاہِری زِیادَت (یعنی بظاہِر ترقّی) محسوس کرے بھی تو اُسے خوش فہمی میں پڑ جانے کے بجائے اس حدیثِ مبارَک کو بار بار پڑھنا اور فکرِ آخِرت میں کُڑھناچاہئے چُنانچِہ سرکارِ نامدار ، مدینے کے تاجدار ، بِاِذنِ پَروَردْگار دوعالَم کے مالِک ومُختار ، شَہَنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاارشادِ عبرت بُنیادہے : بے شکاللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دین کی مدد ایسی قوم کے ذَرِیعے (بھی) لیتا ہے جن کا دین میں کوئی حصّہ نہیں ہوتا ۔ ( مَجْمَعُ الزَّوائِد ج۵ ص۵۴۸ حدیث۹۵۶۴)
مِرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو
کر اخلاص ایسا عطا یا الہٰی
شَریعت سے زِنا کی اجازت مانگناکُفر ہے
سُوال : ایک عورت کے بارے میں سُوال ہے کہ کیا سخت تنگدستی کے عالم میں شریعت اُس عورت کو زِنا کے ذَرِیعے گزر اوقات کرنے کی اجازت دیتی ہے ؟
جواب : شریعتاللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکامات کا نام ہے ۔ اللہ ورسولعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے زِنا کی اجازت مانگنی کُفر ہے ۔ (اس ضمن میں تفصیلی سُوال جواب فتاوٰی رضویہ جلد 13 صَحْفَہ474 پر مُلاحَظہ فرمایئے )
خدا عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کو ہلکا جاننا کیسا ؟
سُوال : یہ جُملہ کہناازرُ وئے شَرْع کیسا کہ ’’ اللّٰہناراض ہوتا ہے تو ہو ۔ ‘‘ ؟
جواب : کُفْر ہے کہ اِس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی کو ہَلکا جاننا پایا جارہا ہے ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ناراض ہونے کی صورت میں بندہ عذاب میں گرِفتار ہوتا ہے ، اوراِس جُملے سے قائل کا اپنے آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّ کے عذاب سے بے خوف ظاہِر کرنے کا پہلو بھی نکل رہا ہے اور یہ بھی کفر ہے ۔ صَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّریقہ حضرت علّامہ مَوْلانامُفتی محمد امجَد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’ کسی سے کہا کہ گناہ نہ کر ورنہ خدا تجھے جہنَّم میں ڈالے گا ۔ ‘‘ اُس نے کہا : میں جہنَّم سے نہیں ڈرتا یا کہا، خدا کے عذاب کی کچھ پروا نہیں ۔ یا ایک نے دوسرے سے کہا : ’’ تُو خداسے نہیں ڈرتا ؟ ‘‘ اُس نے غصّہ میں کہا، ’’ نہیں ۔ ‘‘ یا کہا : خدا کیا کر سکتا ہے ؟اِس کے سِواکیا کرسکتا ہے کہ دوزَخ میں ڈالدے یا کہا : خدا سے ڈر ۔ اُس
نے کہا : خدا کہاں ہے ؟یہ سب کلِماتِ کُفر ہیں ۔ ‘‘ (بہارِشریعت حصّہ ۹ ص ۱۸۰)
اللہ و رسول کے حکم پر دوسرے کے حکم کو ترجیح دینا کیسا ؟