اگر مجرم ہی زیادہ ہوں تو قاضی کیا کرے !
سُوال : اگر کروڑوں میں کسی ایک آدھ مسلمان پر حکمِ کفر لگ جائے تو آدمی کی عقل میں آبھی جائے ۔ آپ کی کتاب ’’ کُفریہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب ‘‘ کے مُطالَعَہ سے تو آج کے دور کے بے شمارظاہری مُسلمان خارِج از اسلام نظر آرہے ہیں !
جواب : مذکورہ کتاب میں مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ کسی بھی مسلمان کو اپنی مرضی سے کافِر نہیں کہا گیا ۔ اِس کتاب کا اگر بنظرِ غائِر( یعنی گہری نظر سے ) مُطالَعَہ کیا جائے تو نتیجہ یہی سامنے آئے گا کہ اِس میں گویا حد بندیاں بیان کی گئی ہیں کہ خبر دار ! فُلاں فُلاں بات یا فُلاں فُلاں حَرَکات سے بچنا ورنہ ایمان چلاجائے گا ۔ اب اگر اِس دَور میں بَہُت سارے لوگ کُفریات بکنے والے پائے جارہے ہوں اور وہ مُبَیَّنَہ( یعنی بیان کردہ ) اسلامی احکام کی زَد میں آ رہے ہوں تو اس میں کتاب کے مُرَتِّب کا کیا قُصور ؟ دیکھئے نا ! اگر مجرِم ہی زیادہ ہو جائیں تو کیا قاضی پر یہ الزام آئے گا کہ کیسا بے رحم آدمی ہے کہ ہر روز اتنے سارے مجرِموں کو سزا سناتا ہے ! ظاہر ہے کوئی بھی عقل مند آدمی قاضی کو الزام نہیں دے گا، بلکہ مجرِم ہی کی مذَمَّت کرے گا اور اپنی حیثیَّت کے مطابِق جُرم کی روک تھام کے لئے کوشاں ہو گا ۔ پَس جب اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے احکام سے منہ موڑا جائے ، یہود و نصارٰی اور مادَّہ پرست لوگوں کی بے ہُودہ تہذیب کے گندے نالے میں مسلمانوں کو ڈَبونے کی سعی کی جائے بلکہ عَین ضَروریاتِ اسلام ہی کا انکار و اِستِخفاف (یعنی ہلکا جاننا) پایا جانے لگے تو ایسے سنگین حالات میں غافلین کو جگانے والیمُصلحِین، واعظین ، مُقرِّّرین، مُبَلِّغِین ، مُؤَ لِّفِین اور مُصَنِّفِینجو کہ اُمّت کے مُحسِنِین ہیں ان کوبے جا تَنقید سے نہیں دُعائے خَیر سے نوازنا چاہئے ۔
آئندہ کافِر ہوجانے کی پَیشِین گوئی !
مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّفِی الحال اِس بات میں قِیل و قال کی جارہی ہے کہ کُفرِیات بکنے والے جَری و بے باک افراد پر حکمِ کُفر کیوں لگایا گیا ؟ جب کہ ایسے ایسے روشن ضمیر عُلَمائے حق بھی گزرے ہیں جو اسلام کے اچّھے خاصے شَیدائی نظر آنے والے کے لئے بسا اوقات پہلے ہی سے پیشین گوئیاں فرما دیا کرتے تھے کہ فُلاں مُستقبل میں کافِر ہو جائیگا ! چُنانچِہ عُلمائے حق کے رہبر ، علم و عمل کے عظیم پیکر ، بِاِذنِ ربّ داور غیب کی باتوں سے باخبر حضرتِ سیِّدُنا صِدّیقِ اکبر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کی خدمتِ سَراپا علم و حکمت میں حاضِر ہو کر رَبِیعہ بن اُمَیّہ بن خَلف نے عرض کی : میں نے کل رات خواب دیکھا ہے کہ میں سر سبز جگہ پر تھا پھر بنجر زمین پرپَہنچ گیا جہاں کوئی پیداوار نہیں ہے ، اور یہ بھی دیکھا ہے کہ دونوں ہاتھ مل گئے اور طوق کی طرح گردن میں لٹک گئے ہیں ۔ حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صدّیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : اگر تونے واقِعی یہ خواب دیکھا ہے تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ تُو اِسلام کو چھوڑ کر کُفر اختِیار کرے گا ، (یعنی مُرتد ہو جائے گا) البتّہ میرے مُعاملات دُرُست رہیں گے ، اور میرے دونوں ہاتھ دنیا کی آلائِشوں سے پاک رہیں گے ۔ راوی کہتا ہے کہ امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا عُمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانۂ خِلافت میں رَبِیعہ مدینۂ منوَّرہزادَھَااللّٰہُ شَرَفًاوَّ تَعظِیْما سے رُوم پہنچا ، اور قیصرِ رُوم کے یہاں جا کرنَصرانی ( یعنی کرسچین) ہو گیا ۔ (تعبیرُ الرؤ یا ص ۵۴)
عُلماء پر اعتراض کہ جب دیکھو کفر کا فتوی داغ دیتے ہیں !
سُوال : اگر کوئی یہ کتاب ’’ کفرِیَّہ کلمات کے بارے میں سُوال جواب ‘‘ پڑھنے کے بعد یوں کہے کہ مولویوں کو تو کفر کے فتوے دینے کے سوا کوئی کام ہی نہیں ، جب دیکھوکفر کا فتوٰی داغ دیتے ہیں ! ایسے شخص کیلئے کچھ مَدَنی پھول دے دیجئے ۔
جواب : اِس طرح کے تَأَثُّرات کا اظہار یقینا دین سے دُوری کا نتیجہ ہے اِسی دُوری نے بعض لوگوں کو بے باک بنا دیا ہے ، وہعُلَمائے دین کی حقیقت ہی نہیں سمجھتے ، انہیں اتنا بھی احساس نہیں کہ آخِر وہ کن ہستیوں کی عزّت وناموس پر حملہ کر رہے ہیں ؟کن کے خلاف دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں ؟اُن کے خلاف، جِن کو دین میں سُتُون کی حیثیت حاصل ہے ، جو دین کے مُحافِظ ہیں لارَیب و شک ! عُلمائے دین بَہُت بڑی شانوں کے مالِک ہیں ان کی مخالَفَت سَبَبِ ہَلاکت اوران کی اطاعت دونوں جہاں کیلئے باعثِ سَعادت ہے ۔ چُنانچَہ پارہ 5 سورۃُ النِّساء آیت نمبر 59 میں ارشادِ ربُّ العباد ہے :
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ- (پ ۵ النساء۵۹)
ترجَمۂ کنزالایمان : اے ایمان والو حکم مانو اللہ کااور حکم مانو رسول کااور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں
عُلَماء کی اطاعت رسول کی اطاعت ہے
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اِس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’ خواہ دینی حُکومت والے ہوں جیسے عالِم ، مُرشِدِ کامِل، فَقِیہ ، مُجتَہِد یا دنیاوی حُکومت والے جیسے اسلامی سلطان اور اسلامی حُکاّم ۔ لیکن دینی حُکّام کی اطاعت دنیاوی حُکّام پر بھی واجِب ہو گی ، مگر ان دونوں کی اِطاعت میں یہ شَرط ہے کہ نَص کے خِلاف حکم نہ دیں ورنہ ان کی اطاعت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ مزید فرماتے ہیں فُقَہاء کی طرف رُجوع کرنا بھی رسول ہی کی طرف رجوع کرنا ہے کیونکہ فُقَہاء حُضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی کا حکم سناتے ہیں ، جیسے حُضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعتاللہ عَزَّ وَ جَلَّ کی اطاعت ہے ایسے ہی عالم دین کی فرمانبرداری رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی فرمانبرداری ہے ۔ ‘‘ (نُورُ العرفان ص ۱۳۷)
سُوال میں مذکور اعتراض میں بِلاتَخصیص(بِلا ۔ تَخ ۔ صِیْص) مُطلَقاً یہ بات کہی گئی ہے کہ مولویوں کو تو کفر کا فتوٰی دینے کے سِواء کوئی کام ہی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اِلَخ، مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ خود یہ جملہ اِنتہائی سخت ہے ، اس میں عُلَمائے دین کی توہین کا پہلوواضِح ہے بلکہ عُلَمائے دین کی توہین ہی مقصود ہو تو کھلا کفر و اِرتِداد ہے ۔ رسولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم، نبیِّ مُحتَشَمصَلَّی