کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مُرتَد کی قربانی کا گوشت کھا سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

سُوال :   مُرتَد کے گھر سے آیا ہوا قربانی کا گوشت کھانا کیسا ہے جب کہ مسلمان قصّاب نے ذَبح کیا ہو ۔

جواب :   قربانی کا جانور ہو یا عام ذبیحہ، قاعِدہ یہ ہے کہ مسلمان کا ذَبح کردہ گوشت ذَبح سے لیکر کھانے تک ایک لمحے کیلئے بھی مسلمان کی نظر سے اَوجھل ہو کر اگر مُرتَد یا غیر کتابی کافِرکے قبضے میں  نہ گیا ہو تو اُس کا کھانا حلال ہے ورنہ حرام ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ارشادفرماتے ہیں  :  ’’ اگر وقتِ ذبح سے وقتِ خریداری تک وہ گوشت مسلمان کی نگرانی میں   رہے ، بیچ میں   کسی وقت مسلمان کی نگاہ سے غائب نہ ہو اور یوں   اطمینان کافی حاصل ہو کہ یہ مسلمان کا ذبیحہ ہے تو اس کا خریدنا ، جائز اور کھانا حلال ہوگا ۔  ‘‘  (فتاوٰی رضویہ ج۲۰ ص۲۸۲)

مُرتَدبیٹا، باپ کی وِراثت کا حقدار ہے یا نہیں  ؟

سُوال : اگر بیٹا مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  مُرتَدہو گیا ہو تو وہ اپنے باپ کی وفات کے بعد وَرثہ پائے گا یا نہیں  ؟

جواب :   نہیں   پائے گا ۔ کیوں   کہ مُرتد کسی کا وارِث نہیں   ہوتا ۔  صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : مُرتَد کسی مُعامَلہ میں   گواہی نہیں   دے سکتا اور کسی کا وارِث نہیں   ہوسکتا اور زمانۂ اِرتدِاد میں   جو کچھ کمایا اُس میں   مُرتَد کا کوئی وارِث نہیں  ۔ (بہارِ شریعتحصّہ۹ص ۱۷۷، دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتار ج۹ ص۳۸۱)

مُرتد سے مسلمان کیا سُلوک کریں  ؟

سُوال :  مسلمانوں   کو مُرتَد کے ساتھ کیا رَوِیّہ(رَ ۔ وِی ۔ یَہ) رکھنا چاہئے ؟

جواب :  اس سلسلے میں   فتاوٰی رضویہ جلد 14صَفْحَہ298 تا299سے گستاخیٔ رسول والے امتحانی پرچے کے مُتَعَلِّق ایک مبارَک فتوے کا اقتِباس مُلاحَظہ ہو ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   :  ’’ ان نام کے مسلمان کہلانے والوں   میں   جس شخص نے وہ مَلعون پرچہ مُرَتَّب کیا وہ کافِر مُرتد ہے ، جس جس نے اس پر نظرِ ثانی کر کے برقرار رکھا وہ کافِر مُرتد ، جس جس کی نگرانی میں   تیّار ہوا وہ کافِر  مُرتد ، طَلَبہ میں   جو کلمہ گو تھے اور اُنھوں   نے بخوشی اس ملعون عبارت کا ترجَمہ کیا اپنے نبی کی توہین پر راضی ہوئے یا اسے ہلکا جانا یا اس کو اپنے نمبرگَھٹنے یا پاس نہ ہونے سے آسان سمجھا وہ سب بھی کافِر مُرتَد، بالِغ ہوں   خواہ (سمجھدار )نابالِغ، ان چاروں   فریق میں   ہرشخص (چُونکہ مُرتَد ہو چکا ہے لہٰذا اُس ) سے مسلمانوں   کو سلام کلام حرام، مَیل جُول حرام، نِشَست و برخاست  حرام ، بیمار پڑے تو اُس کی عِیادت کو جانا حرام، مَر جائے تو اس کا جنازہ اُٹھانا  حرام، اسے مسلمانوں   کے گورِستان( یعنی قبرِستان) میں  دفن کرنا  حرام، مسلمانوں   کی طرح اس کی قبر بنانا  حرام، اسے مٹّی دینا  حرام، اِس پر فاتحہ حرام، اسے کوئی ثواب پہنچانا حرام بلکہ خودقاطِعِ اسلام (یعنی مُرتد کو ایصالِ ثواب کرنا کفر)جب ان میں  کوئی مر جائے اُس کے اَعِزّہ اَقرِبا مُسلمین اگر حکمِ شرع مانیں    تو اس کی لاش دَفعِ عُفُونت (یعنی بدبو سے نَجات)کے لئے مُردار کُتّے کی طرح بھنگی چماروں  سے ٹَھیلے میں   اُٹھواکر کسی تنگ گڑھے میں  ڈلوا کر اُوپر سے آگ پتّھر جو چاہیں   پھینک پھینک کر پاٹ دیں   کہ اس کی بدبُو سے اِیذانہ ہو ۔  یہ اَحکام ان سب (مُرتَدین) کے لئے عام ہیں  ۔ اور جو جواُن میں  نِکاح کئے ہوئے ہوں   ان سب کی جَو رُوئیں   (یعنی بیویاں  )ان کے نِکاحوں   سے نکل گئیں   اب اگرقُربَت ہوگی حرام حرام حرام و زِنائے خالِص ہو گی اور اِس سے جو اولاد پیدا ہو گی وَلَدُالزِّنا ہوگی ۔  عورَتوں   کو شرعاً اختیار ہے کہ عِدَّت گزرجانے پر جس سے چاہیں   نِکاح کر لیں  ۔ ان (مُرتَدین ) میں   جسے ہدایت(نصیب) ہو اور(وہ) توبہ کرے اور اپنے کفر کااقرار کرتا ہوا پھر مسلمان ہو، اُس وَقت یہ اَحکام جو اس کی موت سے متعلِّق تھے مُنتہَی (یعنی ختم) ہوں  گے ، اور وہ مُمانَعَت جو اُس مَیل جُول کی تھی جب بھی باقی رہے گی، یہاں   تک کہ اس کے حال سے صِدقِ نَدامت وخُلوصِ توبہ و صحّتِ اسلام ظاہِرو روشن ہو مگر عورَتیں   اس سے (یعنی مُرتَدشوہر کے  توبہ و تجدیدِ ایمان کر لینے کے باوُجُود) بھی نِکاح میں   واپَس نہیں   آ سکتیں   ، انھیں   اب بھی اختیار ہو گا کہ چاہیں   دوسرے سے نِکاح کر لیں   یا  کسی سے نہ کریں  ، ان پرکوئی جَبر نہیں   پہنچتا  ۔ ہاں   ان (عورَتوں  )کی مرضی ہو تو  بعدِ(قبولِ) اسلام ان (یعنی سابِقہ شوہروں  )سے بھی نِکاح کر سکیں   گی  ۔  ‘‘  

امتحانی پرچہ میں   مُرتد لیڈر کے بارے میں   سوال آئے تو ۔ ۔ ۔  ۔ ؟

سُوال :  اِ س جواب سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امتحانی پرچوں   میں   کسی مُرتَد لیڈر کے فضائل کے بارے میں   سُوال ہو تو اُس کا جواب نہ دیا جائے ؟

جواب : بے شک نہ دیا جائے چاہے امتحان میں   فیل ہوناپڑے ۔  اگر اس لیڈر کے مُرتَد ہونے کے بارے میں   یقینی معلومات ہونے کے باوجُود جواب میں   مسلمان لکھ دیا تو لکھنے والا بالغ یا سمجھدار نابالغ طالب علم خود کافر و مُرتَد ہو جائے گا مزید تفصیل گزشتہ جواب میں   موجود ہے ۔

لاکھوں   بلا میں   پھنسنے کو روح بدن میں   آئی کیوں   !

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  ہم دنیا میں   پیدا ہوکر واقعی سخت امتحان میں   مبتَلا ہو چکے ہیں  ۔ بَہُت احتِیاط سے زندگی بسر کرنی چاہئے اگر خدانخواستہ کسی کے قول و فِعل سے اس پر کُفرقطعینافِذ ہو گیا اور اللہ  عَزَّوَجَلَّ نہ کرے بِغیر توبہ وتجدیدِ ایمان کے موت آپہنچی تو چاہے لاکھ حاجی نمازی ہو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ کی آگ میں   جلنا پڑے گا ۔ صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان قَطعی(قَطْ ۔ عی)جنّتی ہونے کے باوُجُود خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے ہمیشہ لرزاں   و ترساں   رہا کرتے تھے ۔  چُنانچِہ تین صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کے خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ میں   ڈوبے ہوئے عبرت انگیز ارشادات مُلاحَظہ ہوں   :

{1}کاش میں   مَینڈھا ہوتا

 

Index