کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

سے خود کو نہیں   بچاتے ، مذاق مسخریوں   ، اور غیر سنجیدہ حرکتوں   کی عادتوں   سے پیچھا نہیں   چُھڑاتے ۔  آہ !  بُری صحبت کی نُحُوست ایسی چھائی ہے کہ لمحہ بھر کیلئے بھی تنہائی میں  یاد ِ الہٰیعَزَّوَجَلَّ  کرنے کو جی نہیں   چاہتا ۔ ایمان کی حفاظت کی اگر چِہ چاہت ہے تاہم اِس کیلئے بُرے دوست چھوڑنے بلکہ کسی قسم کی قربانی دینے کی ہِمّت نہیں  ۔ یادرکھئے ! بُرا دوست ایمان کیلئے باعثِ نقصان ثابت ہو سکتا ہے ۔ ہمارے پیارے پیارے آقا مکی مدنی مصطَفٰیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے :    ’’ آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اُسے یہ دیکھنا چاہئے کہ کس سے دوستی کرتا ہے ۔  ‘‘  (مُسند امام احمد ج۳ ص ۱۶۹ ۔  ۱۶۸ حدیث  ۸۰۳۴) مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں   :  یعنی کسی سے دوستانہ کرنے سے پہلے اسے جانچ لو کہ اللہ(عَزَّوَجَلَّ) رسول(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ) کا مطیع(یعنی فرماں   بردار) ہے یا نہیں  رب تعالیٰ فرماتا ہے : وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (ترجَمۂ کنزالایمان : اور سچوں   کے ساتھ ہو( پ ۱۱ ، التوبۃ : ۱۱۹))  صُوفیاء فرماتے ہیں   کہ انسانی طبیعت میں   اخذ یعنی لے لینے کی خاصیَّت ہے ۔ حَریص کی صحبت سے حرص ، زاہد کی صُحبت سے زُہد وتقوٰی ملے گا ۔  خیال رہے کہ خُلَّت  دلی دوستی کو کہتے ہیں   جس سے مَحَبَّت دل میں  داخِل ہو جاوے ۔  یہ ذکر دوستی ومَحَبَّت کا ہے کسی فاسِق وفاجِر کو اپنے پاس بٹھا کرمُتَّقی بنا دینا تبلیغ ہے  ۔ حُضُورِ انور( صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  ) نے گنہگاروں   کو اپنے پاس بلا کر مُتّقیوں   ( یعنی پرہیزگاروں  ) کاسردار بنا دیا ۔  (  مراٰۃ المناجیح ج ۶ ص ۵۹۹)

آپ کے قدموں   میں  گر کر موت کی یامصطَفٰے

آرزو کب آئیگی بر بے کس و مجبور کی

ایمان کی حفاظت کیلئے الگ تھلگ رہنے والا

            ایک شخص سب سے الگ تھلگ رہتا تھا ۔ حضرت سیِّدُنا ابودَرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کے پاس تشریف لا کر جب اِس کا سبب دریافت کیا تو اُس نے کہا :  ’’  میرے دل میں   یہ خوف بیٹھ گیا ہے کہ ہیں   ایسا نہ ہو میرا ایمان چِھن جائے اور مجھے اِس کی خبر تک نہ ہو ۔  ‘‘ (  قُوتُ القُلوب ج ۱ ص ۴۶۸ مُلَخَّصاً) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔    اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

دل میں   ہو یاد تِری گوشۂ تنہائی ہو                   پھر تو خَلوَت میں   عجب انجمن آرائی ہو

آستانے پہ تِرے سر ہو اَجَل آئی ہو                                اور اے جانِ جہاں   تُو بھی تماشائی ہو

   ایمان لوٹنے کیلئے چِھینا جھپٹی !    

        آہ !  نہ جانے ہمارا کیا بنے گا ! موت لمحہ بہ لمحہ قریب آ رہی ہے ، قَبْر  کی منزل کی جانِب برابر آگے کُوچ جاری ہے ۔ تصوُّر کیجئے کہ ہم  گویا  بڑی احتیاط کے ساتھ ایمان کوبحفاظت سینے سے چِمٹائے ہوئے ہیں  ، ایک طرف نفسِ اَمّارہ ایمان پر جَھپَٹ رہا ہے ، تو دوسری طرف شیطان پَینتر ے بدل بدل کروار کر رہا ہے ، تیسری طرف بدمذہب ایمان پرکَمند ڈالنے میں   مصروف ہیں   توچوتھی طرف سے دنیا کی بے جا مَحَبَّت ایمان کے دَرپَے ہے  ! یعنی یوں   سمجھئے کہ کوئی ہاتھ مَروڑ رہا ہے ، کوئی ٹانگ کھینچ رہا ہے ، کوئیمکّے رسید کر رہا ہے ، کوئی لاتیں   اُچھال رہا ہے ، ہر ایک پورا زور لگا رہا ہے کہ کسی طرح ہم سے ایمان چھین لے ۔ آہ ! اِس حالت میں   ایمان کی دولت کو سلامت لیکرقَبْر میں   کیسے داخِل ہوں   !

محبوبِ (عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )خدا سر پہ اَجَل آ کے کھڑی ہے

شیطان سے عطّارؔ کا ایمان بچا لو

  سَلْبِ ایمان کی فکْر میں   شب  بھر گرِیہ وزاری

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلام ایمان چِھن جانے کے خوف سے لَرزاں   وتَرساں   رہا کرتے تھے چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا یوسُف بن اَسباطرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  : میں   ایک دَفعہ (دَف ۔ عَہ) حضرتِ سیِّدُنا سُفیان ثَوری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے پاس حاضِر ہوا ۔  آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ ساری رات روتے رہے ۔ میں   نے دریافت کیا : کیا آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ گناہوں   کے خوف سے رو رہے ہیں   ؟ تو آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ایک تنکا اٹھایا اور فرمایا کہ گناہ تواللہ عَزَّوَجَلَّ    کی بارگاہ میں   اِس تنکے سے بھی کم حیثیَّت رکھتے ہیں  ، مجھے تو اس بات کا خوف ہے کہ کہیں   ایمان کی دولت نہ چِھن جائے ۔  (منہاج العابدین ص ۱۶۹)  اللّٰہُرَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

مسلماں   ہے عطّارؔ تیری عطا سے

ہو ایمان پر خاتِمہ یا الہٰیعَزَّوَجَلَّ

صُبح مُومِن  تو شام کو کافِر

            حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مَروی ہے ، حُضورِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم ، رحمتِ عالم، شَہَنْشاہِ عَرَب و عَجَم، رسولِ مُحتَشَم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ