کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

نہیں   کیا اگرچِہ وہ دن میں   ستَّربار گناہ کرے ۔  (سُنَنُ ابی داؤد  ج ۲ ص ۱۲۰  ۔

 ۱۲۱  حدیث ۱۵۱۴)  مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت  حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں  : بوقتِ توبہ گناہ سے باز رہنے کا پورا ارادہ ہو اور اگر توبہ کے وَقت ہی یہ خیال ہے کہ گناہ کرتا ہی رہونگا ، تو یہ توبہ نہیں   بلکہ(معاذاللہعَزَّوَجَلَّ ) اسلام کا مذاق ہے ۔  ( مراٰۃ المناجیح ج۳ ص ۳۶۴)

گناہ کو حلال سمجھنا

سُوال : گناہ کو حلال سمجھنا کیسا ؟

جواب : کسی بھی صغیرہ یا کبیرہ گناہ کو حلال سمجھنا کُفر ہے جب کہ اس کا گناہ ہونا دلیلِ قَطعی سے ثابِت ہو اِسی طرح گناہ کو ہلکا سمجھنا بھی کُفر ہے ۔  (مِنَحُ الرَّوض ص ۴۲۳ )

سُوال :  جواب میں   آپ نے دلیلِ قطعی لفظ لکھا ہے ، اِسی طرح کہیں   نصِ قطعی لکھا ہوتا ہے مہربانی کر کے ان کے معنیٰ بیان کر دیجئے ۔

جواب : دلیلِ قطعی اور نصِ قطعی دونوں   ایک ہی چیز ہیں   ۔ نَصِّ قطعی( دلیلِ قطعی ) سے مُراد قراٰنِ پاک کی آیت یا حدیثِ مُتواتِر ہوتی ہے اور اگر آیت و حدیثِ مُتَواتِر کی دلالت بھی قطعی ہو تو اس سے قطعی طور پر فَرضیَّت ثابِت ہو تی ہے ۔

 ’’ گناہ کرکے توبہ کرنا اللہ کی سُنَّت ہے  ‘‘  کہنا کیسا ؟

 سُوال :  زَید نے کہا کہ گُناہ کرکے توبہ کرنا خود اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی سنّت ہے ۔ کیا ایسا کہنا کُفر نہیں  ؟

جواب :  ضَرور کُفر ہے ۔  اِس قَولِ بد تَراَز بَول([1]) کا ظاہِرو واضِح مَفہُوم ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ کے لئے گُناہ و توبہ کا اِثِبات (یعنی اِقرار) اور اللّٰہُ المُبینعَزَّوَجَلَّ کی سخت ترین توہین ہے اور یہ صَریح کُفْرہے ۔ کہنے والا اسلام سے خارِج ہو گیا  ۔

گناہ کو اچّھا جاننا کیسا ؟

سُوال : گناہ کواچّھا جاننا کیسا ؟

جواب :   صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  ارشاد فرماتے ہیں    :  ’’ جو شخص مَعصِیَّت(یعنی اللہ و رسول کی نافرمانی) کرے اس کو اچّھا بتانااس کے یہ معنیٰ ہوتے ہیں   کہ گناہ گناہ نہیں   اور جس گناہ کا ثُبوت نصِّ قَطعی سے ہو اس کے معصِیَّت ہونے کا انکار کفر ہے مَثَلًا شرابی ، جُواری ، چور وغیرھم سب ہی اچّھے ہوں   تو یہ اَفعال گناہ نہ ہوئے اور ان کو گناہ نہ جانناقراٰنِ مجید کا انکار ہے ۔   ‘‘ (فتاوٰی امجدیہ ج ۴ص۴۵۵) 

 ’’ جھوٹ بولا تو کیابُرا کیا !   ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال : ایک شخص نے کسی بات پر بِلا اجازتِ شَرعی جھوٹ بولا ۔  اس پر جب اُس کو کسی نے ٹوکا تو اُس منہ پھٹ نے بکا :  ’’  آج کل سچّائی کازمانہ نہیں   ہے میں   نے جھوٹ بولا تو کیا بُرا کیا !  ‘‘  اِس طرح کہنے والے کیلئے کیا حکم ہے ؟

جواب : اس طرح کہنے والے پر حکمِ کفر ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعلیہ رحمۃُ الرَّحمٰنکی خدمت میں   استِفتا(اِس ۔ تِفْ ۔ تا)پیش ہوا :  عَمرو نے جان بوجھ کر کچہری (کورٹ)میں   جھوٹی گواہی دی ۔  لوگوں   نے اِس پر اِعتِراض کیا تو کہنے لگا :  کچہری میں   آج کل  سچ کون بولتا ہے ! جتنے جاتے ہیں   سبھی وہاں   جھوٹ ہی بولتے ہیں  ، اگر میں   نے جھوٹ کہا تو کیا بُرا کیا !  الجواب :  حدیث میں   فرمایا :  جھوٹی گواہی دینے والا وہاں   سے  قدم ہٹانے نہیں   پاتاحتّٰی کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ   اُس کیلئے جہنَّم واجِب فرما دے گا  ( اِبنِ ماجہ ج ۳ حدیث۲۳۷۳) یہاں   تک توگناہِ   کبیرہ   ہی تھا جو آدَمی کی ہلاکت و بربادی کو بس ہے ۔  آگے اس کا کہنا کہ ’’  میں   نے جھوٹ بولا تو کیا بُرا کیا !  ‘‘  صَریح کلمۂ کُفر ہے ۔  اِس پر لازِم ہے کہ تجدیدِ اسلام کرے اور اگر عورت رکھتا ہو تو از سرِ نو اسلام لانے کے بعد اُس سے  تجدیدِ نکاح ضَرور ی  ہے (فتاوٰی رضویہ  ج ۱۵ص۱۴۹ ۔ ۱۵۰)

 ’’ چھوٹی مَوٹی باتیں   تو چل جائیں   گی ‘‘  کہنا

 سُوال :  مُرید سے جھوٹ بولنے کا گُناہ صادِر ہوا، اِس پر اُس کے پیر صاحِب نے ٹوکا ۔ مُرید کہنے لگا :  ’’ حُضور ! آپ جیسی کامِل ہستی سے میری نسبت ہے ، اِس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں   توچل جائیں   گی  ۔  ‘‘   حُکمِ شَرعی بیان کیجئے ؟

جواب : مُریدِ بے باک کا یہ جُملۂ ناپاک کُفر ہے کیوں   کہ اِ س نے ایسے گناہ کو ہلکا جاناجس کا معصیَّت(نافرمانی) ہونا ضَروریاتِ دین میں   سے ہے ۔

امامِ اعظم کا خوفِ خداعَزَّوَجَلَّ

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  جو لوگ دنیا ہی کو اپنا سب کچھ بنا بیٹھتے ، موت کوبُھلا بیٹھتے اور نیک لوگوں   سے رِشتہ تُڑا بیٹھتے ہیں   وہ عام طور پر بے لگام ہوجاتے ہیں  ، ان کی زَبان گویا ان کے دل کے آگے ہوتی ہے ، دل کی طرف رُجوع کرنے کی نَوبت ہی نہیں   آتی بس جو کچھ زَبان کی نوک پر آیا پھسل کر باہَر آجاتا ہے اور وہ ہر دم بک بک کرتے رہتے ہیں   اور پھر اس طرح مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ زَبان سے کُفرِیّات سر زد ہونے کا امکان بھی بڑھتاچلا جاتا ہے ۔  ہمیں   اپنے اندر خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ  پیدا کرنا چاہئے ۔ کروڑوں   حنفیوں   کے پیشوا اور میرے آقا و مولا



[1]    بول ۔  یعنی پیشاب

Index