کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

ہیں   اور جن پر خُصوصی کرم ہو وہ عبادت بھی بجا لاتے ہیں  ۔ حُصولِ بَرَکت کیلئے ایک حِکایت  پیش کی جاتی ہے پڑھئے اور جھومئے ۔

    قَبر میں  جُوں   ہی اُتارا نَماز پڑھنے لگے  !

            حضرتِ سیِّدُنا امام عبدُ الوہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی فرماتے ہیں  : حضرتِ سیِّدُنا شیخ موسیٰ بن ماھین زولی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  ’’ ماردین‘ ‘ میں   رہتے تھے ، وہیں   وفات پائی اور اُسی مقام پر آپرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کامزارِ فائضُ الانوار زیارت گاہ خواص وعوام ہے ۔  جوں   ہی آپ  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو لحد میں   رکھا گیا توقَبْر وسیع ہو گئی اور آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کھڑے ہو کر نَماز پڑھنے لگے ! جو شخص آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی لَحد میں   اترا تھا وہ یہ منظردیکھ کر بے ہوش ہوگیا ۔ ( الطبقات الکبری للشعرانی  ج۱ص ۱۹۶)اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

 ’’ ایک لاکھ24ہزار انبیا ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال :  کیا یہ دُرُست ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام دنیا میں   تشریف لائے ۔

جواب :  تعداد مُعَیَّن نہ کی جائے ۔  کہنا ہی ہو تو اِس طرح کہے :  ’’  کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ۔ ۔ ۔ ۔  ۔  ‘‘  صَدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : انبِیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کی کوئی تعدادمُعَیَّن کرنا جائز نہیں   ، کہ خبریں   اِس باب میں   مختلف ہیں   اور تعدادِمُعَیَّن پر ایمان رکھنے میں   نبی کو نُبُوّت سے خارِج ماننے ، یا غیرِ نبی کو نبی جاننے کا اِحتِمال(یعنی پہلو) ہے ، اور یہ دونوں   باتیں  ( یعنی نبی کو نُبُوّت سے خارِج ماننا ، یا غیرِ نبی کو نبی جاننا) کفر ہیں  ۔ لہٰذا یہ اعتِقاد چاہئے کہ  اللہ  (عَزَّوَجَلَّ)کے ہر نبی پر ہمارا ایمان ہے ۔  ( بہارِ شریعت حصہ اول ص ۳۷)

گوتم بدھ کو نبی کہنا کیسا ہے ؟

سُوال :    گوتم بدھ کو نبی تصوُّر کرنا کیسا ہے ؟

جواب :  بَہُت سخت جہالت وگمراہی ہے  ۔ حضرتِ فقیہِ ملّت مفتی جلالُ الدّین احمد امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   :  ’’  رام کرشن، گوتم بدھ وغیرہ ہرگز نبی نہیں  ۔ انہیں   نبی ورسول خیال کرنا سخت جَہالت وگمراہی ہے ۔  ‘‘   (فتاوٰی فَقِیْہِ مِلَّت ج۱ ص ۲۴  )مزید تفصیلات کیلئے مُفَسّرِشہیرحکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان کی کتابِ مُستَطاب شانِ حبیب الرحمنصَفْحَہ 197 تا 198 کامُطالَعَہ فرمایئے  ۔

نُبُوّت صِرف اللّٰہ کی عنایت سے ملی ہے

سُوال :   کیا محض عبادت و ریاضت کے ذریعے بھی کسی کو نبوّت ملی ہے ؟

جواب :  جی نہیں  ۔ نُبُوَّت کسبی یعنی اپنی کوشش سے حاصِل کی ہوئی نہیں   ہوتی ، وَہبی یعنی عطائی ہوتی ہے ۔ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ1250 صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ بہارِ شریعت ‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 36پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  فرماتے ہیں   : نُبُوَّت کسبی نہیں   کہ آدمی عبادت و ریاضت کے ذَرِیعہ سے حاصِل کر سکے بلکہ محض عطائے الہٰی ہے کہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل سے دیتا ہے  ۔ ہاں   دیتا اُسی کو ہے جسے اِس منصبِ عظیم کے قابِل بناتا ہے ۔  جو قبلِ حُصُولِنُبُوّت تمام اَخلاقِ رَذِیلہ سے پاک اور تمام اَخلاقِ فاضِلہ سے مُزَیَّن ہو کر جُملہ مَدارِجِ وِلایت (ولایت کے تمام درجات) طے کر چکتا ہے اور اپنے نسب و جسم و قول و فعل و حرکات و سکنات میں   ہر ایسی بات سے مُنَزَّہ(پاک) ہوتا ہے جو باعِث نفرت ہو ۔ اُسے عقلِ کامِل عطا کی جاتی ہے جو اوروں   کی عقل سے بَدَرَجَہا زائد ہے کسی حکیم اور کسی فلسفی کی عقل اُس کے لاکھویں   حصّہ تک نہیں   پہنچ سکتی(قراٰنِ حکیم پارہ 8 سورۃُ الانعام آیت نمبر 124میں   فرمانِ عظیم ہے : ) اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗؕ-   ترجَمۂ کنزالایمان : اللہ خوب جانتا ہے جہاں   اپنی رسالت رکھے ۔  (پ۸ الانعام ۱۲۴) ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۱) ترجَمۂ کنزالایمان : یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے دے اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔ (پ۲۷ الحدید ۲۱  )  مزید  فرماتے ہیں   : جو اسے کسبی(یعنی کوشِش سے حاصِل کی ہوئی) مانے کہ آدمی اپنے کسب و رِیاضت (محنت و مشقَّت )سے مَنصبِ نُبُوّت تک پہنچ سکتا ہے کافِر ہے ۔      (بہارِ شریعت  ج۱ حصہ ۱ص۳۶)

نبی کو بندہ کہنے سے انکار کرنے والے کا حکم

سُوال :  اُس کیلئے کیا حکم ہے جو یہ کہے کہ میں  حُضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کو  اللہ  عَزَّوَجَلَّ کا بندہ نہیں   مانتا ۔

جواب :   ایسا شخص مُرتَد ہے ۔  قراٰنِ پاک میں   مُتَعَدَّد مقامات پر ایسی آیات ہیں   جن میں   سرورِکائنات  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ  عَزَّوَجَلَّ کا بندہ کہا گیا ہے ۔ ہر نَمازی پانچوں   وقت نَماز کے قَعدے میں   کلمۂ شہادت پڑھتا اور اقرار کرتا ہے :