کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

پڑھنے میں   حرج نہیں  ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن غیر عالم کے نعتیہ شاعری کرنے کے سخت خلاف تھے چُنانچِہفتاوٰی رضویہ شریف سے جاہِل نعت گویوں   کی مَذمَّت کے دو اِقتِباسات مُلا حَظہ ہوں   : {1} وہ پڑھنا سُننا جو مُنکَراتِ شَرعِیَّہ (یعنی شرعی مُمانَعَتوں  )پر مشتمل ہو ، ناجائز ہے ، جیسے رِوایاتِ باطِلہ(یعنی من گھڑت رِوایتوں  ) و حِکایاتِ مَوضُوعہ (یعنی بناوٹی حِکایتوں  )واَشعار ِخلافِ شَرع خُصُوصاً جن میں   توہینِ انبیاء و ملائکہ عَلَيْهِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہو کہ آج کل کے جاہِل نعت گویوں   کے کلام میں   یہ بَلا ئے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ(یعنی نبیوں   اور فِرِشتوں  کی توہین)صَرِیح کلِمۂ کُفرہے ۔ العِیاذُ بِاللّٰہِ تعالٰی ۔  وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعلَمُ ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص ۷۲۲) {2}(جاہِل نعت خوان جب)اَشعار گائیں   تو شُعراء بے شُعُور(یعنی نادان شاعِروں   ) کے (کہ جِن میں  ) انبیاء کی توہین ، خدا پر اِتِّہام (تہمت ) اور (پھر) نعت و مَنقَبت کانام بدنام ، جب تو( ایسی محفِل میں  ) جانا بھی گناہ ، بھیجنا بھی حرام اور اپنے یہاں   (ایسی محفِل کا)اِنعِقاد مجمعِ آثام، (یعنی گناہوں   بھرا اجتِماع)آج کل اکثر مَواعِظ و مجالسِ عوام کا یِہی حالِ پُر ملال ۔ فَاِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن ۔ (ایضاً ج۲۲ ص ۲۳۱)  

             میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! سرکارِ اعلیٰ حضرت، امام اَحمد رَضا خانعلیہ رحمۃ الرحمٰنکے ارشاداتِ عالِیَّہ کا خُلاصہ یِہی ہے کہ جاہِل نعت گوشاعروں   کے کلام بَسااوقات کفرِیّات سے بھر پور ہوتے ہیں   لہٰذا ایسے کلام پڑھنے والوں   کو محفلِ نعت میں   بلانا بھی ناجائز ، ایسی نعت خوانی میں   کسی کو بھیجنا بھی حرام اور ایسے کلام کا سننا بھی گناہ ۔

اعلیٰ حضرت دو کے علاوہ قصداً کسی کا (اردو)کلام نہ  سنتے

سُوال :  اعلیٰ حضرت کون کون سے شُعرا کانعتیہ کلام سننا پسند فرماتے تھے ؟

جواب :  نعت گو شاعروں   کی اکثریت اپنے کلام میں  چُونکہ اَحکام ِشریعت کا لحاظ نہیں   کرتی اِس وجہ سے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ قصداً صِرف دو شُعرائے کرام (۱) حضرت مولیٰنا کفایت علی کافیؔاور(۲) حضرت مولیٰنا حسن رضا خان رحمہما اللہ تعالٰی کا کلام سماعت فرماتے تھے ۔  چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطبوعہ561 صَفحات پر مشتمل کتاب ،  ’’ ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت ‘‘  صَفْحَہ   225 پر ہے : ایک صاحِب، (حضرت) شاہ نیاز احمد صاحِب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے عُرس میں   بریلی تشریف لائے تھے ۔  اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت میں   حاضِر ہوئے ، کچھ اشعار نعت شریف کے سنانے کی درخواست (یعنی نعتِ پاک پڑھنے کی خواہش ظاہِر )کی ۔  (اعلیٰ حضرت نے ) اِستِفسار فرمایا :  کس کا کلام ؟انہوں   نے ( کلام لکھنے والے کا نام )بتایا اِس پر ارشاد فرمایا : سِوا دو(شُعَرا) کے کلام کے کسی کا کلام میں   قصداً(یعنی ارادۃً اپنی خواہش سے ) نہیں   سنتا ، (فقط ان دو  یعنی ) مولانا (کِفایت علی)کافیؔ اور (میرے بھائی) حسن ؔمیاں   مرحوم کا کلام(سنتا ہوں   )  ۔ صَفْحَہ227 پر مزید فرماتے ہیں  : اور حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکِل ہے جس کو لوگ آسان سمجھتے ہیں  ، اس میں   تلوار کی دھار پر چلنا ہے ! اگر بڑھتاہے تو الُوہِیَّت میں   پہنچا جاتا ہے اور کمی کرتا ہے توتَنقِیص (یعنی توہین)ہوتی ہے ۔ البتّہ حمد آسان ہے کہ اس میں   راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے ۔  غَرَض حمد میں   ایک جانِب اَصلاًحد نہیں   اور نعت شریف میں   دونوں   جانب سخت حد بندی ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت )

 نعتیہ شاعِری ہرایک کا کام نہیں 

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  اگر کسی محفل میں   غیر شرعی کلام پڑھا جا رہا ہو تو جو معلومات رکھتا ہو اُس پر واجِب ہے کہ اصلاح کرے جبکہ یہ ظنِّ غالب ہو کہ غلطی کرنے والا مان جائے گا اور اگر ماننے کی اُمّید نہ ہو تو فوراً اُٹھ جائے ، اگر کیسٹ وغیرہ میں   ناجائز الفاظ یا معانی والا شعر سنیں   تو فوراً ٹیپ ریکارڈر بندکر دیجئے اور آئندہ بھی کیسٹ میں   اُس شعر کو سننے سے پرہیز کیجئے اور ممکنہ صورت میں   کیسٹ اور نعت خوان و نعت گو شاعر وغیرہ کی اصلاح کی تدبیر بھی کیجئے ۔

            کس کس  کا کلام پڑھنا چاہئے ؟

سُوال : کس کس شاعرکی لکھی ہوئی نعتیں   پڑھنا سننا چاہئے ؟

جواب :  ہر اُس مسلمان کی لکھی ہوئی نعت شریف پڑھنی سننی جائز ہے جو شریعت کے مطابِق ہو ۔  اب چونکہ کلام کو شریعت کی کسوٹی پر پرکھنے کی ہر ایک میں   صلاحیّت نہیں   ہوتی لہٰذا عافیّت اسی میں   ہے کہ مستند علمائے اہلسنّت کا کلام سنا جائے ۔  اردو کلام سننے کیلئے مشورۃً ’’  نعتِ رسول ‘‘  کے سات حروف کی نسبت سے سات اسمائے گرامی حاضِر ہیں   : {1}امامِ اہلسنّت  ، مولیٰنا شاہ امام احمد رضاخانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن  {2}استاذِ زَمَن حضرت مولیٰنا حسن رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان {3} خلیفۂ اعلیٰ حضرت مَدّاحُ الحبیب حضرت مولیٰنا جمیل الرحمٰن رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  {4}  شہزادۂ اعلیٰ حضرت، تاجدارِ اہلسنّت حُضور مفتیٔ اعظم ہند مولیٰنا مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان {5}شہزادۂ اعلیٰ حضرت ، حجۃ الاسلام حضرتِ مولیٰنا حامد رضا خانعلیہ رحمۃ المنّان{6} خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی ، {7}مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر  ت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان وغیرہ ۔

سُوال :  کیا غیر عالم شاعر کا کلام پڑھنے سننے کی بھی کوئی صورت ہے ؟

جواب :  اگر غیرِ عالم شاعِر کا کلام پڑھنا سننا چاہیں   تو کسی ماہرِ فن سنّی عالِم سے اُس کلام کی پہلے تصدیق کروا لیجئے ۔  اِس طرح اِن شاءَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  ایمان کی حفاظت میں   مدد ملے گی، ورنہ کہیں   ایسا نہ ہو کہ کسی کُفریہ شِعرکے معنیٰ سمجھنے کے باوُجُود اس کی تائید کرتے ہوئے جُھومنے اور نعرہائے دادو تحسین بُلند کرنے کے سبب ایمان کے لالے پڑ جائیں   ۔ غیر عالمِ کو نعتیہ شاعری سے اوَّلاً بچنا ہی چاہئے اور ان اہم مسائل کے علم سے قبل اگر کچھ کلام لکھ بھی لیا ہے توجب تک اپنے تمام کلام کے ہر ہر شعر کی کسی فَنِّ شِعری کے ماہرعالمِ دین سے تفتیش نہ کروا لے اُس وَقت تک پڑھنے اور چھاپنے سے مُجْتَنِب(دُور) رہے ۔ میرے