خدا کی قسم ! بَہُت رُسوائی ہوگی کہ بروزِ قِیامت کافِروں کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنَّم میں جھونک دیا جائیگا جہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ عذاب میں رہنا پڑیگا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں زَبان کی لغزِشوں سے بھی بچائے اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے ۔ اٰمین ۔ ہمارے صَحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان قبرو آخِرت کے معاملے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے بَہُت ڈرتے تھے ، غلبۂ خوف کے وَقت ان حضرات کی زبان سے بَسا اوقات اس طرح کے کلمات ادا ہوتے تھے : کاش ! ہمیں دنیامیں بطورِ انسان نہ بھیجا جاتا کہ انسان بن کر دنیا میں آنے کے باعِث اب خاتمہ بِالاِیمان، قبرو قیامت کے امتحان وغیرہ کے کٹھن مراحِل درپیش ہیں ۔ ایک بارحضرتِ سیِّدُناابودَرداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ میں ڈوب کر فرمایا : ’’ اگر تم وہ جان لو جو موت کے بعد ہونا ہے تو تم پسندیدہ کھانا پینا چھوڑ دو ، سایہ دارگھروں میں نہ رہو بلکہ ویرانوں کا رُخ کر جاؤ اور تمام عمر آہ و زاری میں بسر کر دو ‘‘ اس کے بعد فرمانے لگے : ’’ کاش ! میں درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا ۔ ‘‘ ( الزھد للامام احمد بن حنبل ص۱۶۲، رقم ۷۴۰)
میں بجائے انساں کے کوئی پودا ہوتا یا
نَخل ([1])بن کے طیبہ کے باغ میں کھڑا ہوتا
ابنِ عساکِر نے تاریخِ دِمشق جلد 47 صَفْحَہ193 پر حضرتِ سیِّدُنا ابو درداء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے یہ کلمات نَقل کیے ہیں : کاش ! میں دُنبہ ہوتا، مجھے کسی مہمان کے لیے ذَبح کر دیا جاتا، مجھے کھاتے اور کِھلا دیتے ۔
جاں کنی ([2])کی تکلیفیں ذَبح سے ہیں بڑھ کر کاش ! مُرغ بن کے طیبہ میں ذَبح ہوگیا ہوتا
مَرغزار ([3])طیبہ کا کوئی ہوتا پروانہ گردِ شمع پِھرپِھر کر کاش ! جل گیا ہوتا
کاش ! خَر ([4])یاخَچَّر یا گھوڑا بن کر آتا اور
مصطَفٰے نے کُھونٹے سے باندھ کر رکھا ہوتا
جاہل کو عالِم سے بہتر جاننا کیسا ؟
سُوال : جاہل کو عالم سے بہتر سمجھنا کیسا ؟
جواب : اگر علمِ دین سے نفرت کے سبب جاہل کو عالم سے بہتر سمجھتا ہے تو یہ کفر ہے ۔ فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السلامفرماتے ہیں : اس طرح کہنا : ’’ عِلم سے جَہالت بہتر ہے یا عالِم سے جاہل اچّھا ہوتا ہے ۔ ‘‘ کُفر ہے ۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲ ص ۵۱۱)جبکہ علمِ دین کی توہین مقصود ہو ۔
طالبِ علمِ دین کو کُنویں کا مینڈک کہنا
سُوال : دینی طالبِ عِلم یا عالِمِ دین کوبَنَظرِحَقارت کُنویں کا مَینڈک کہنا کیسا ہے ؟
جواب : کُفرہے ۔
’’ مولوی لوگ کیا جانتے ہیں ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : ایک شخص نے کسی بات پر حَقارت کے ساتھ کہا : ’’ مولوی لوگ کیا جانتے ہیں ! ‘‘ اُس کا اس طرح کہنا کیسا ؟
جواب : کفر ہے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ’’ مولوی لوگ کیا جانتے ہیں ؟ ‘‘ کہنا کُفر ہے (فتاوٰی رضویہ ج ۱۴ ص ۲۴۴)جبکہ عُلَماء کی تحقیر مقصود ہو ۔
’’ دین پر عمل کو مولویوں نے مشکِل بنا دیا ہے ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : یہ کہنا کیسا ہے کہ ’’ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے دین کو آسان اُتارا تھا مگرمولویوں نے مشکِل بنا دیا ! ‘‘
جواب : یہ عُلَماء کی توہین کی وجہ سے کلمۂ کُفر ہے ۔ کیونکہفُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام فرماتے ہیں : اَ لْاِسْتِخْفَافُ بِا لْاَشْرَافِ وَالْعُلَمَاءِکُفْرٌ ۔ یعنی اَشراف ( ساداتِ کرام) اور عُلَماء کی تَحقیر(انہیں گھٹیاجاننا) کُفر ہے ۔ (مَجْمَعُ الْاَنْہُر ج۲ص۵۰۹)
سُوال : قراٰن وحدیث کی روشنی میں کئے جانے والے بدمذہبوں کے رَدّ پر مُشتمِل عُلَمائے اہلسنّت کے بیان کو بطورِ تحقیر ’’ ہَڑا ہُوڑی ‘‘ کہنا کیسا ہے ؟
جواب : کُفْر ہے ۔ ہاں اگر صِرف اندازِ بیا ن کو نامناسب کہنا مقصود ہو تو کُفرنہیں ۔