کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ زَبان سے کُفرِیّات سر زد ہونے کا امکان بھی بڑھتاچلا جاتا ہے ۔  ہمیں  اپنے اندر خوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ  پیدا کرنا چاہئے ۔ کروڑوں   حنفیوں   کے پیشوا اور میرے آقا و مولا حضرت ِ امامِ اعظم ، فَقِیہِ اَفْخَم، امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا خوفِ خدا  مُلاحَظہ ہو ۔  چُنانچِہ منقول ہے ، ایک بارسیِّدُناامامِ اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کسی سے گفتگوفرما رہے تھے کہ کسی بات پر اچانک اُس شخص نے امامِ اعظم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے کہا :  اِتَّقِ اللّٰہ !  یعنی خدا کاخوف کرو ! ان ا لفاظ کا اُس کے مُنہ سے نکلنا تھا کہ سیِّدُنا امامِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کا چِہرہ زَرد پڑ گیا ، سر جُھکا لیا اورفرمانے لگے :  بھائی ! اللہ عَزَّوَجَلَّ  آپ کو جَزائے خیر دے ، عِلم پر جس وَقت کسی کو ناز ہونے لگے اُس وقت وہ اِس بات کا ضَرورت مند ہوتا ہے کہ کوئی اس کواللہ عَزَّوَجَلَّ    کی یاد دلا دے ۔ ( عقود الجمان ص ۲۲۷)

                 اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ بھول سے پاک ہے

  سُوال :  ’’ میری قِسمت میں   شاید اللہ عَزَّوَجَلَّ کچھ لکھنا ہی بھول گیا ہے  ‘‘ یہ کہناکیسا ہے ؟

جواب :  ایسا کہنا کفر ہے  ۔ کیوں   کہ اِس قَول میں  اللّٰہُ ربُّ الْعٰلمین عَزَّوَجَلَّکی شدید ترینتوہین کرتے ہوئے اسے  ’’ بھول جانے والا قرار ‘‘  دیا گیا ہے ۔  یقینا اللہ عَزَّوَجَلَّ  بھول جانے سے پاک ہے ۔ اور ہر وہ بات جس میں   اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف بُھول جانا ثابت کیا جائے خالِص کُفر ہے ۔  چُنانچِہ پارہ16 سورۂ طٰہٰکی آیت نمبر52  میں   ارشاد ہوتا ہے :

لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى٘(۵۲) (پ ۱۶ طٰہٰ ۵۲ )

تَرْجَمَۂ کنزالایمان : میرا  رب (عَزَّوَجَلَّ )نہ بہکے نہ بُھولے  ۔

اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی طرف بھول منسوب کرنا

سُوال :   ’’ نہ جانے میرا بُلاوا کب آئے گا ؟شایَد بنانے والا بُھول گیا ہے  ۔  ‘‘  یہ کہنا کیسا ہے ؟

جواب :   ایسا کہنا کُفر ہے ۔  کیونکہاللہ  عَزَّوَجَلَّ  بھولنے سے پاک ہے ۔   بہار ِ شریعت میں  ہے  :  ’’  کوئی شخص بیمارنہیں   ہوتا یا بُہت بوڑھا ہے مرتا نہیں   اُس کے لیے کہنا کہ اِسے اللّٰہ میاں   بھول گئے ہیں   ‘‘  یہ کفر ہے ۔    (بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۷۹، عالمگیری ج۲ص۲۵۹)

         اللہ میاں   کہنا کیسا ؟

سُوال :  اللّٰہ میاں   کہنا کیسا ؟

جواب : اللہ  عَزَّوَجَلَّکے ساتھ  ’’  میاں   ‘‘ کا لفظ بولنا ممنوع ہے ۔ اللّٰہ پاک ، اللّٰہ تعالیٰ ، اللہ  عَزَّوَجَلَّ  اوراللّٰہ تبارَکَ وَ تعالیٰ وغیرہ بولنا چاہئے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں  :  ’’ (اللہ تعالیٰ کے لئے ) مِیاں   کا اِطلاق نہ کیا جائے (یعنی نہ بولا جائے )کہ وہ تین معنیٰ رکھتا ہے ، ان میں  دو۲  ربُّ العزَّت کے لئے مُحال(یعنی ناممکن) ہیں  ، مِیاں   (یعنی) آقا اور شوہر اور مردوعورت میں   زِناکا دلال ، لہٰذا اِطلاق مَمنوع ۔ ‘‘   ( فتاوٰی رضویہ ج۱۴ص۶۱۴)

  ’’ ایمان  ‘‘  کا لباس کس کو ملیگا ؟

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  جب بھی کوئی آفت آ پڑے خواہ طویل عرصے تک بے رُوزگاری یا بیماری دُور نہ ہو یا مسائل حل نہ ہوں   ، ہر موقع پر صِرف صَبْر صَبْر اور صَبْرسے کام لینا اور آخِرت کا ثواب و اَجر حاصِل کرنا چاہئے ۔  حضرتِ سیِّدُنا داوٗدعَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام نے بارگاہِ خُداوندی عَزَّوَجَلَّ میں   عرض کی : اے میرے رب ! جو آدَمی تیری رِضا کے حُصُول کے لیے مُصیبتوں   پر صَبْر کرتا ہے اُس پریشان اور غمگین آدَمی کا بدلہ کیا  ہے ؟ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  نے فرمایا :  اُس کا بدلہ یہ ہے کہ میں   اُسے ایمان کا لباس پہناؤں   گا اور اُس سے کبھی بھی نہیں   اُتاروں   گا ۔  (اِحیاء العلوم ج۴ ص۹۰)اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔

                                   اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     

 ’’ کیسے یقین کروں   کہ اللّٰہ سُنتا ہے ۔  ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال : اگر کوئی پرِیشان حال یوں   کہہ بیٹھے :  ’’  کیسے یقین کروں   کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  سُنتا ہے ۔  ‘‘ تو کیا حُکْم

Index