ہیں اوربعض اسلام کی طرف اور کہنے والے کی نیّت کا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اُس نے کون سا پہلو مُرادلیا ہے ۔ میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ہمارے ائمّہ رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰی نے حکم دیا ہے کہ اگر کسی کلام میں 99 اِحتِمال کُفرکے ہوں اور ایک اسلام کا تو واجِب ہے کہ احتِمالِ اسلام پر کلام محمول کیا جائے جب تک اس کا خِلاف ثابِت نہ ہو ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۴ص۶۰۴، ۶۰۵)
صَدْرُالشَّرِیْعَہ، بَدْرُ الطَّریقہحضرتِ علّامہ مَولانامُفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُاللّٰہِ القویفرماتے ہیں : کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اُس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی ہاں اگر معلوم ہو کہ قائل (کہنے والے ) نے معنیٔ کفر کا ارادہ کیا مَثَلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی(کفریہ معنی والی) ہے تو (اب ) کلام کا مُحْتَمَل(مُحْ ۔ تَ ۔ مَل) ہونا ( یعنی کلام میں تاویل کا پایا جانا) نفع نہ دیگا ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر ہونا ضَرور نہیں ۔ ( بہارِ شریعت حصّہ ۹ ص ۱۷۳ )
بِغیر عِلم کے فتوٰی دینا کیسا ؟
سُوال : جو مفتی نہ ہونے کے باوُجُود بِغیر علم کے فتویٰ دے اُس کیلئے کیا حکم ہے ؟
جواب : ایسا شخص سخت گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہے ۔ سرکارِ مدینہ ، قرارِ قلب و سینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ باقرینہ ہے : ’’ جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں ۔ ‘‘ (اَ لْجامِعُ الصَّغِیر ص۵۱۷ حدیث۸۴۹۱ ) میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23صَفْحَہ 716 پر فر ماتے ہیں : سندحاصِل کرنا تو کچھ ضَرور نہیں ، ہاں باقاعِدہ تعلیم پانا ضَرور ہے (تعلیم خواہ) مدرَسہ میں ہو یا کسی عالِم کے مکان پر ۔ اور جس نے بے قاعِدہ تعلیم پائی وہ جاہِلِ مَحض سے بدتر ، ’’ نِیم مُلّا خطرۂ ایمان ‘‘ ہو گا ۔ ایسے شخص کو فتویٰ نَوِیسی پر جُرأَت حرام ہے ۔ اور اگر فتویٰ سے اگر چِہ صحیح ہو، (مگر) وجہُ اللہ مقصود نہیں (یعنی دُرُست فتویٰ ہو تب بھی اگر اللہ کی رِضا مطلوب نہیں ) بلکہ اپنا کوئی دنیاوی نفع منظور ہے تو یہ دوسراسَبَبِ لعنت ہے کہ آیاتُ اللہ کے عِوَض ثَمَنِ قَلیل(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتوں کے بدلے تھوڑا بھاؤ) حاصِل کرنے پر فرمایا گیا : اُولٰٓىٕكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ وَ لَا یُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ وَ لَا یَنْظُرُ اِلَیْهِمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ لَا یُزَكِّیْهِمْ۪-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۷۷)(پ۳ اٰل عمران ۷۷)
ترجَمۂ کنزالایمان : آخِرت میں ان کا کچھ حصّہ نہیں ، اور اللہ (عَزَّوَجَلَّ) نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قِیامت کے دن ، اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کیلئے درد ناک عذاب ہے ۔
غَلَط مسئلہ بتانا سَخْت کبیرہ گناہ ہے
میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 23 صَفْحَہ 711 تا 712 پر فرماتے ہیں : جُھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ (گناہ) ہے اگرقَصداً ہے تو شریعت پر افتِرائ(یعنی جھوٹ باندھنا) ہے اور شریعت پرافتِراء اللہ عَزَّوَجَلَّ پرافتِراء ہے ، اور اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ(۶۹) (پ۱۱ یونس۶۹)
ترجَمۂ کنزالایمان : وہ جو اللہ (عَزَّوَجَلَّ) پر جھوٹ باندھتے ہیں ان کا بھلا نہ ہو گا ۔
اگر عالم بھول کر غلط مسئلہ بتا دے تو گناہ نہیں
اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہِل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے ۔ ہاں اگر عالِم سے اِتِّفاقاً سَہو(بھول) واقِع ہوا اور اُس نے اپنی طرف سے بے اِحتِیاطی نہ کی اور غَلَط جواب صادِر ہوا تو مُواخَذَہ(مُ ۔ آ ۔ خَ ۔ ذَہ) نہیں مگر فرض ہے کہ مُطَّلع ہوتے ہی فوراً اپنی خطا ظاہِرکرے ، اِس پر اِصرار کرے تو پہلی شِق یعنی اِفتِراء ( جھوٹ باندھنا) میں آ جائے گا ۔ واللہ تعالٰی اعلم ۔ (فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص۷۱۱، ۷۱۲)
سُوال : جان بوجھ کر کسی جاہل سے مسئلہ پوچھنا کیسا ؟
جواب : گناہ ہے ۔ تاجدارِ رسالت، محبوبِ ربُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ سراپا عبرت ہے : مَنْ اَفْتیٰ بِغَیْرِ عِلْمٍ کَانَ اِثْمُہُ عَلیٰ مَنْ اَفْتَاہُ ۔ یعنی ’’ جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ ‘‘ (سُنَنُ اَ بِی دَاوٗد ج۳ ص۴۴۹ حدیث ۳۶۵۷ )
مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : ’’ اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ، ایک یہ کہ جو شخصعُلَماء کو چھوڑ کر جاہِلوں سے مسئلہ پوچھے اور وہ غَلَط مسئلہ بتائیں تو(بتانے والا تو گنہگار ہے ہی) پوچھنے والا بھی گناہ گار ہوگا کہ یہ عالِم کو چھوڑ کر اس کے پاس کیوں گیا، نہ یہ پوچھتا نہ وہ غَلَط بتاتا ۔ دوسرے یہ کہ جس شخص کو غَلَط فتویٰ دیا گیا تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ بے علم کا مسئلۂ شرعی بیان کرنا سخت جُرم ہے ۔ ‘‘ (مراٰۃ المناجیح ج۱ ص۲۱۲ )