کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

شیطان  ‘‘ ہے یہ کفر ہے ۔  

کیا بھوت اور چُڑَیل کا بھی وُجود ہے ؟

  سُوال :  کیا آسَیب ، بھوت اورچُڑَیل وغیرہ کا بھی وُجُود ہے ؟

جواب :  جی ہاں  ۔ فتاوٰی رضویہ جلد21صَفْحَہ218 پرمیرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کے فرمانِ والا شان کا خُلاصہ ہے : ہاں   جِنّ اور ناپاک رُوحیں   مرد و عورت ، احادیث سے ثابِت ہیں   اور وہ اکثر ناپاک موقَعَوں   پر ہوتی ہیں  ۔ انہیں   سے پناہ کے لئے اِ ستِنجاء خانے جانے سے پہلے یہ دعا پڑھنا وارِد ہوئی :   ’’  اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْخُبُثِ وَ الْخَبَا ئِث ۔ یعنی میں  گندی اور ناپاک چیزوں   سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں   ۔  ‘‘  (یہ یا اِس طرح کی اور کوئی ماثور دعا پڑھ کر جانے سے استنِجاخانے میں   رہنے والے گندے جنّات نقصان نہیں   پہنچا سکتے )

کیا انسان پر اولیا کی سُواری آ سکتی ہے ؟

سُوال :  مشہور ہے ، بعض جگہ مرد یا عورت پر شہید یا ولیُّ اللہ کی  ’’  سُواری ‘‘  آتی ہے اِس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب :  بعض اوقات تو یہ نِرا ڈھونگ ہوتا ہے جو کہ حُبِّ جاہ اور سستی شہرت کے بھوکے مردوعورت عوام کو اپنی طرف متوجِّہ کرنے اور بھیڑ جمانے کیلئے ایسا کرتے ہیں   اور بسا اوقات یہ شریر جنّات ہوتے ہیں   جوکہ کسی انسان پر غلبہ پا کر ایسی باتیں   کرتے ہیں  ۔ چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :   ’’ یہ(یعنی شریر جِنّات) سخت جھوٹے کذّاب ہوتے ہیں   ، اپنا نام کبھی شہید بتاتے ہیں   اور کبھی کچھ ۔  اِس وجہ سے جاہِلانِ بے خِرَد(یعنی بے عَقل جاہِلوں  ) میں    ’’ شہیدوں   کا سر پر آنا ‘‘  مشہور ہو گیا، ورنہ شُہَدائے کرام ( اور اولیائے عظام) ایسی خبیث حرکات سے پاک و صاف ہوتے ہیں   ۔  ‘‘  ( ماخوذاز فتاوٰی رضویہ ج۲۱ ص ۲۱۸)

جِنّات کی حاضِری

سُوال :  بعض مرد و عورت کو جنّات کی ’’  حاضِری ‘‘  آتی ہے ۔ اُن سے سوال جواب کرنا کیسا ہے ؟

جواب :   جِنّات سے آئندہ کی بات پوچھنی حرام ہے ۔  مَثَلاً پوچھنا، میر ا بچّہ کب تندُرُست ہو گا ؟میں   مقدَّمہ جیتوں   گا یا نہیں  ؟میری فُلاں   جگہ شادی ہو گی یا نہیں  ؟ میں   امتحان میں   کامیابی پاؤں   گا یا نہیں  ؟وغیرہ سوالات کرنا حرام اور جہنَّم میں   لے جانے والے کام ہیں   ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں  :   ’’ حاضِرات کرکے مُوَکَّلَان جِنّ سے پوچھتے ہیں   فُلاں   مُقَدّمہ میں   کیا ہوگا ؟ فُلاں   کام کا انجام کیا ہوگا ؟یہ حرام ہے ۔  ‘‘  (فتاویٰ افریقہ، ص۱۷۷ ۔ ۱۷۸)

کیا جِنّ کو آئِندہ کی باتوں   کا پتا چل جاتا ہے ؟

سُوال : جِنّ کی آئندہ کی بتائی ہوئی غیب کی خبر پر یقین کر سکتے ہیں   یا نہیں  ؟

جواب :  نہیں   کر سکتے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   :  ’’ حاضِرات کرکے مُوَکَّلَان جِنّ سے (آئندہ کی باتیں  ) پوچھتے ہیں   ، فُلاں   مقدمہ میں   کیا ہوگا ؟ فُلاں   کام کا انجام کیا ہوگا ؟یہ حرام ہے ۔   ‘‘  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔

  جِنّ غیب سے نِرے ( یعنی مکمَّل طور پر) جاہِل ہیں  ۔ ان سے آئندہ کی بات پوچھنی عَقلاً حماقت اور شرعاً حرام اور ان کی غیب دانی کا اِعتِقاد ہو تو(یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ جِنّ کو علمِ غیب ہے یہ ) کُفرہے ۔ (فتاویٰ افریقہ، ص۱۷۸)  جِنّات کو ایک سال تک حضرتِ سیِّدُنا سُلَیمانعَلیٰ نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلامکی وفاتِ ظاہِری کا علم نہ ہو سکا ۔  چُنانچِہ اللّٰہُ عالِمُ الْغَیبجلَّ جَلَا لُہٗ کی سچّی کتاب قراٰنِ پاک میں   ارشاد ہوتا ہے :

فَلَمَّا خَرَّ تَبَیَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ الْغَیْبَ مَا لَبِثُوْا فِی الْعَذَابِ الْمُهِیْنِؕ(۱۴)       (پ۲۲ سبا۱۴)

ترجَمۂ کنز الایمان  : پھر جب سلیمان ( عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) زمین پر آیا، جنوّں   کی حقیقت کُھل گئی ۔  اگر غیب جانتے ہوتے تو اِس خواری کے عذاب میں   نہ ہوتے  ۔

مذکورہ بالا آیتِ کریمہ سے ثابِت ہوا کہ جِنّات علمِ غیب نہیں   جانتے ۔

وفاتِ سُلَیمان عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی حِکایت

سُوال :  اِس آیتِ کریمہ میں   حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ وَ السَّلاماور جنّات کے جس واقِعہ کی طرف اشارہ ہے اگروہ بھی ارشاد فرما دیا جائے تو مدینہ مدینہ ۔

جواب :  حضرت ِسیِّدُنا سُلَیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کی عمر شریف 53  سال کی ہوئی ، 13 برس کی عمر میں   آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام  کو بادشاہت ملی، 40 برس تک آپ  عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام تختِ سلطنت پر جلوہ افروز رہے ۔  آپ  عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا مزارِفائضُ الانوار  بیتُ المُقدَّس میں   ہے ۔  آپ عَلٰی نَبِیِّنَا وعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلامکی مثالی وفاتِ ظاہِری کا ایمان افروز واقِعہ بھی سن لیجئے :

             مُلکِ شام میں   جس جگہ حضرتِ سیِّدُناموسیٰکلیمُ اللہعَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلامکا خَیمہ گاڑا گیا تھا ٹھیک اُسی (بَرَکت والی)جگہ حضرتِ سیِّدُنا داوٗد  عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام نے بیتُ المُقدَّس کی بُنیاد رکھی ۔  مگر عمارت پوری ہونے سے قَبل ہی حضرتِ سیِّدُناداوٗد  عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلامکی وفاتِ ظاہِری کا وَقت آگیا چُنانچِہ اپنے فرزندِ اَرجُمند حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃ والسَّلام  کو اس عمارت کی تکمیل کی وصیّت فرمائی ۔  حضرتِ سیِّدُنا سُلیمان عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہ الصَّلٰوۃ والسَّلام  نیجِنّات کے ایک گُرَوْہْ (گُ ۔ رَوْہْ) کو اس کام پر لگادیا ۔ عمارت ابھی تعمیری

Index