کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

میراکوئی دین مذہب نہیں   اور ایسا کہنا کفر ہے چُنانچِہ فُقَہائے کرام  رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلامفرماتے ہیں  : بیوی نے شوہر سے کہا :  ’’ تجھے نہ غیرت ہے اورنہ ہی تیراکوئی دین اسلام ہے کہ تو غیروں   کے ساتھ میری تنہائی پر راضی ہے  ‘‘  شوہر نے جواباً کہا :   ’’ ہاں  ، مجھے نہ غیرت ہے اورنہ ہی میرا دین اسلامہے  ‘‘  یہ قول کفرہے  ۔  ‘‘  (عالمگیری ج۲ص۲۷۷  )

چار مُحاوَرات

 سُوال : عام بول چال میں  یہ چار مُحاوَرے استعمال کئے جاتے ہیں    ۔ کہیں  یہ کفریہ تونہیں  ؟

(1)میں   تودین کا رہانہ دنیاکا   (2)اپنے پاس تونہ دنیاہے نہ دین

(3)میں   تونہ دین کا ہوں   نہ دنیاکا (4)فُلاں   تونہ دین کا ہے نہ دنیاکا

 

جواب :  مذکورہ جملے عموماً لوگوں   میں   محاورۃً استعمال کئے جاتے ہیں   جوکہ کفر نہیں   کیونکہ ان سے مُرادیہ ہوتی ہے کہ میں   کسی کام کانہیں   ہوں   یعنی نکمّا ہوں   جیسا کہ فیروزُاللُّغات صَفْحَہ 711 پر اس مُحاورے  ’’ دین کا نہ دنیاکا  ‘‘ کے معنیٰ لکھے ہیں   :  ’’ کسی کام کانہیں   ، نکما ۔  ‘‘  (فتاوٰی دارالافتاء اہلسنّت غیر مطبوعہ)

شَفاعت کا انکار

سُوال :  شَفاعت کاانکار کرناکیسا ؟

جواب :  مُطلَقاًشَفاعت کا انکار حکمِ قراٰنی کا انکار اورکُفر ہے ۔  چُنانچِہ قراٰنِ کریم کی مشہورو معروف آیتِ کریمہاٰیۃُ الکُرسی میں   ہے  :

مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ- (پ ۳ البقرہ ، ۲۵۵)

ترجَمۂ کنزالایمان : وہ کون ہے جو اس کے یہاں   سِفارش کرے بے اس کے حکم کے ۔

          صدرُ الافاضِل حضرتِ علّامہ مولیٰنا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی فرماتے ہیں   : اِس میں   مُشرِکین کا رَد ہے جن کا گُمان تھا کہ بُت شَفاعت کرینگے  ۔ انہیں   بتا دیا گیا کہ کُفّار کے لئے شَفاعت نہیں   ۔ اللہ   (عَزَّوَجَلَّ)کے حُضُور مَأذُوْنِیْن(یعنی اجازت یافتگان) کے سوا کوئی شَفاعت نہیں   کرسکتا اور اِذن والے (یعنی اجازت یافتہ) انبِیاء وملائکہ ومُؤمنین ہیں  ۔   (خَزَائِنُ الْعِرْفَان ص۷۶)     ’’ اَلْبَحْرُ الرَّائِق ‘‘ جلد1 صَفْحَہ 611 پر ہے :  ’’  جو نبیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شفاعت کا منکر ہو یا کراما کاتبین کا منکر ہو یا رُویت باری (یعنی دیدارِ الہٰی )کا انکار کر تا ہو اس کے پیچھے نماز جائز نہیں   اس لیے کہ وہ کافر ہے ۔  ‘‘           

 ’’ توبہ کوئی چیز نہیں    ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال : ایک شخص سے گناہ سرزد ہو گیا پھر اُس نے توبہ کر لی ۔  تو بعض لوگوں   نے کہا :   ’’ اس نے دکھانے کیلئے توبہ کی ہے ،  ‘‘ اور یہ بھی کہا کہ ’’  توبہ کوئی چیز نہیں   ۔  ‘‘ حکمِ شریعت بیان کیجئے ۔

جواب :   میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰناِسی طرح کے ایک سُوال کے جواب میں    ارشاد فرماتے ہیں   : توبہ کوئی چیز نہیں   سے مُراد اگراُس گناہ کرنے والے کی توبہ ہے کہ اس نے دل سے توبہ نہیں   کی تو مسلمان پر بدگُمانی ہے اور وہ سخت حرام ہے ۔ اور اگر یہ مُراد ہو کہ سِرے سے توبہ ہی کوئی چیز نہیں   تو مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  صریح کُفر ہے ۔  ( فتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۶۰۹ ۔ ۶۱۰مُلَخَّصاً)

اللہ مالک نہیں   ‘‘  کہنا کیسا ؟

سُوال :  زید نے بکر سے کہا :  ’’ سامان زیادہ ہوگا کوئی گاڑی کرلینا ۔  ‘‘  بکر نے جوابدیا :   ’’ اللہ  مالِک ہے  ‘‘  ۔  تو زیدنے کہا :   ’’ اللہ  مالِک نہیں   خود ہی کرنا ہے  ‘‘  اس گفتگو میں   شرعاً کوئی گرِفت ہے یا نہیں  ؟

جواب : زید پر حکمِ کُفر ہے ۔ کیوں   کہ اِس جملے میں   اِس نے اللہ  عَزَّوَجَلَّ  کے مالِک ہونے کا انکار کیا ہے ۔

 ’’  چاہے اللہ پسند کرے یا نہ کرے میں   تو زیادہ کھاؤں   گا ‘‘  کہنا

سُوال :  کسی سے کہا گیا :  زیادہ نہ کھا(یا زیادہ مت سو یازیادہ مت ہنس) کہ اللہ  عَزَّوَجَلَّ  زیادہ کھانے (یا سونے یا ہنسنے ) والے کو پسند نہیں   کرتا  ۔ اُس نے جواب دیا : میں   تو زیادہ کھاؤں   گا( یا زیادہ سوؤں   گا یا زیادہ ہنسوں   گا)چاہے وہ اپنا پسندیدہ بندہ بنائے یا نہ بنائے ۔ جواب دینے والے کیلئے کیا حکم ہے ؟

 جواب : جواب دینے والے پر حکمِ  کفر ہے ۔   ( ماخوذ ازفتاوٰی عالمگیری ج۲ ص ۲۶۰)

 ’’ مسلمان بن کر امتحان میں   پڑ گیا ہوں    ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال :   بیزاری کے ساتھ یہ کہنا کیسا کہ  ’’ میں  تو مسلمان بن کر امتحان میں   پڑ گیا ہوں  ، کافِر ہی اچّھا تھا ۔  ‘‘

 جواب :   یہ قولِ بدتراز بَول اسلام سے بیزاری اور کُفر سے یاری کاپتا دیتا ہے ۔  یہ شخص کافر و مُرتَد ہے ۔

 

Index