سے حاصِل ہوتا ہے ۔ جیسا کہ فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے : میرے صحابہ کو گالی مت دو، کیونکہ آخِر زمانے میں ایک قوم آئے گی ، جو میرے صَحابہ کو گالی دے گی ، پس اگر وہ (گالیاں دینے والے )بیمار ہو جائیں تو ان کی عِیادت نہ کرنا ، اگر مر جائیں تو ان کی نَمازِ جنازہ نہ پڑھنا ، ان سے ایک دوسرے کا نِکاح نہ کرنا، نہ انہیں وِراثت میں سے حصّہ دینا، نہ انہیں سلام کرنا اور نہ ہی ان کے لئے رَحمت کی دُعا کرنا ۔ (تاریخ بغداد ج۸ ص ۱۳۹)
جب صَحابۂ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین کو گالی دینے والے کے
بارے میں یہ حُکم فرمایا گیا توشاہِ خیرالانام صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہِ عالی میں گستاخی کرنے والے کا معاملہ کس قَدَراَشَد ہوگا ؟
مُرتَد سے ہمدردی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟
سُوال : کیامُرتَد کے ساتھ انسانی ناطے سے بھی ہمدردی نہ کی جائے ؟
جواب : حقیقت میں دیکھا جائے تو مسلمان ہی ’’ انسان ‘‘ ہے ۔ جبکہ جو اپنے خالق و مالِکعَزَّوَجَلَّ کی توہین اور اُس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گستاخی کرے وہ نام نِہاد انسان بِالیقین بدتراز حَیوان ہے ۔ مُرتَد کے ساتھ ہر طرح کے مُقاطَعَہ (یعنی بائیکاٹ) کوبھی شاید ان معنوں پر ایک گُونہ ہمدردی کہا جا سکے کہ یوں وہ کسی طرح بیزار ہو کر، تائب ہو کر دامنِ مصطَفٰیصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں پناہ لے لے ۔ یاد رکھئے ! مُرتَدسے ہمدردی کا اظہار ایمان کیلئے زَہرِہَلا ہَل( یعنی زہرِ قاتِل )ہے ۔
مُرتَد کے بارے حکمِ شَرعی کو ظلم کہنا
مُرتَد سے ہمدردی کرنے کی پاداش میں ایک عورت کے ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے کیمُتَعَلِّق ایک فتویٰ مُلاحَظہ فرمایئے چُنانچِہ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی بارگاہِ عالی شان میں کچھ اِس طرح سُوال ہوا : سُنّیوں کے مَحَلّے میں ایک قادِیانی نیا نیا رہنے آیا ۔ غَیُورسُنّیوں نے اہلِ مَحَلّہ کو اس سے مَیل جُول کرنے اور کسی قسم کا تعلُّق رکھنے سے مَنع کیا ۔ اِس پر ایک عورت نے یوں کہا : ’’ بڑے نَمازِیئے پڑھ کرمُلّا ہو گئے ، ہم عذاب ہی بُھگَت لیں گے ، اِس بے چارے قادِیانی کو دِق(یعنی تنگ) کر رکھا ہے ۔ ‘‘ اِس عورت کے بارے میں شَرعی حکم کیا ہے ؟ الجواب : یہ عورت نَماز کی تَحقیر کرنے ، عذابِ الٰہی کو ہلکا ٹھہرانے ، قادِیانی(مُرتَد) کو اِس فِعلِ مسلماناں (یعنی بائیکاٹ کرنے کا کہنے کے سبب) سے مظلوم جاننے اور اس سے مَیل جُول ترک کرنے کو ظلم و ناحق سمجھنے کے سبب اسلام سے خارِج ہوگئی ۔ اپنے شوہر پر حرام ہو گئی ، جب تک ان کلمات سے توبہ کر کے نئے سِرے سے اسلام نہ لائے ۔ (ماخوذ ازفتاوٰی رضویہ ج۱۴ ص ۶۵۴)
کیا واقِعی ’’ گستاخ رسول کی توبہ قَبول نہیں ؟ ‘‘
سُوال : سنا ہے گستاخِ رسول کی توبہ قَبول نہیں ۔ اگر کوئی گستاخی کا مُرتکِب واقِعی نادِم ہوا تو کیا کرے ؟
جواب : گستاخِ رسول کافِر و مُرتد ہے ۔ اِس کے قَبولِ توبہ کے بارے میں میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : ہمارے اَئِمّۂ مذہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ م کے نزدیک ساب (یعنی گستاخِ رسول) مُرتَد ہے اور اس کے سب احکام مثلِ مُرتَد ، مُرتَد اگر توبہ کرے تُقْبَلُ وَلَا یُقْتَل ( قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے ) (فتاوٰی رضویہ ج ۱۵ ص ۱۵۲)
سرکارصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کوچرواہا کہنا کیسا ؟
سُوال : اگر کوئی شخص سرکارِ مدینہصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’ اُمّت کا چرواہا ‘‘ کہے ، اسکے لئے کیاحکم ہے ؟
جواب : یہ توہین آمیز لفظ ہے کہنے والا توبہ و تجدید ایمان کرے ۔ اِسی طرح کے ایک سُوال پر کہ کسی مقرِّر نے اپنی تقریر میں آقائے دوجہان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ عظمت نشان میں کہا : ’’ وہ اُمّت کے چرواہے تھے ۔ ‘‘ صدرُ الشَّریعہ بدرُ الطَّریقہ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نے جواباً ارشاد فرمایا : یہ (لفظ) نِہایت مُبْتَذَل (یعنی حقیر)و ذلیل ہے ، ایسے الفاظ سے احتراز کرے (یعنی بچے )اورتوبہکرے اور تجدیدِ نکاح کرے ۔ مسلما ن با رگاہِ اقدس میں عرض کیا کرتے تھے : راعِنا ۔ یعنی ہماری رِعایت فرمایئے ! یہود موقع پا کر زَبان دباکر اس طرح کہتے کہ بظاہِر تو وُہی(راعِنا) معلوم ہوتا مگر وہ کہتے : ’’ راعِیْنا ‘‘ یعنی ’’ ہمارے چرواہے ۔ ‘‘ اِس پر آیتِ کریمہ نازِل ہوئی ، اِس لفظِ ’’ راعِنا ‘‘ سے مُمانَعَت فرما کر یہ حکم دیا کہ ’’ اُنْظُرْ نا ‘‘ کہو یعنی ’’ ہماری طرف نظر فرمایئے ‘‘ (کہا کرو) تو جس لفظ سے راعی(یعنی چرواہا) کا اِیہامِ بعید(یعنی دُور کا شبہ پڑتا) تھا اس تک سے مُمانَعَت فرمائی گئی ، تو ظاہِر ہے کہ خود اس( چرواہا کہنے )کی مُمانَعَت کس دَرجہ ہو گی ۔ خُصُوصاً یہ اُردو کا لفظ(چرواہا) تو نہایتسَخِیف(یعنی انتہائی گھٹیا) ہے ۔ (سرکار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بارے میں ) اُمّت کے نگہبان و محافظ وغیرہ الفاظ بولنا چاہئے ۔ وَاللّٰہُ تَعالٰی اَعْلمُ ۔ ( فتاوٰی امجدیہ ج ۴ ص۲۵۷ ۔ ۲۶۰)
فریاد ہے اے کشتیٔ اُمّت کے نگہبان
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
مُوئے مبارَک کی گستاخی کرنا کیسا ؟
سُوال : سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مُوئے مبارَک کی گستاخی کرنا کیسا ؟