دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 312 صَفحات پر مشتمل کتاب ، ’’ بہارِ شریعت ‘‘ حصّہ 16 صَفْحَہ 245پر صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : بعض اَسماء اِلٰہیہ جن کا اِطلاق(بولا جانا ) غیرُ اللہ پر جائز ہے ان کے ساتھ نام رکھنا جائز ہے ، جیسے علی، رشید، کبیر، بدیع، کیونکہ بندوں کے ناموں میں وہ معنی مُراد نہیں ہیں جن کا ارادہ اللہ تعالیٰ پر اِطلاق کرنے (بولنے ) میں ہوتا ہے اور ان ناموں میں الف ولام ملا کر بھی نام رکھنا جائز ہے ، مَثَلاً العَلی، اَلرَّشید ۔ ہاں اس زمانہ میں چُونکہ عوام میں ناموں کی تَصغیر کرنے کا بکثرت رواج ہوگیا ہے ، لہٰذا جہاں ایسا گمان ہو ایسے نام سے بچنا ہی مناسب ہے ۔ خُصُوصاً جب کہ اسماء اَلٰہیَّہ کے ساتھ عبد کا لفظ ملا کر نام رکھا گیا، مَثَلاً عبدالرحیم، عبدالکریم، عبدالعزیز کہ یہاں مُضاف اِلَیہ سے مُراد اللہ تعالیٰ ہے اور ایسی صورت میں تصغیر(چھوٹا کرنا) اگر قصداً ہوتی تو معاذ اللہ کفر ہوتی، کیونکہ یہ اس شخص کی تَصغیر نہیں بلکہ معبودِ برحق کی تَصغِیر ہے مگر عوام اور ناواقِفوں کا یہ مقصد یقینا نہیں ہے ، اِسی لیے وہ حکم نہیں دیا جائے گا بلکہ اُن کو سمجھایا اور بتایا جائے اور ایسے موقع پر ایسے نام ہی نہ رکھے جائیں جہاں یہ اِحتمال (گمان)ہو ۔ (دُرِّمُختار، رَدُّالْمُحتارج۹ص۶۸۸)
سُوال : عبدُالقادِر، عبدالقدیر، عبدالرَّزَّاق وغیرہ نام والے افراد کو قادِر، قدیر اور رزّاق کہ کر پکارنا کیسا ہے ؟
جواب : اِس طرح کے ایک سُوال کا جواب دیتے ہوئے شہزادۂ اعلیٰ حضرت حُضُور مفتیٔ اعظم ہند مولیٰنا محمد مصطَفٰے رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ المَنّان فرماتے ہیں : ایسے ناموں سے لفظ عبد کا حَذْف(یعنی الگ کر دینا) بَہُت بُرا ہے اور کبھی ناجائز و گناہ ہوتا ہے اور کبھی سرحدِ کفر تک بھی پہنچتا ہے ۔ قادِر کا اِطلاق توغیر پر جائز ہے ۔ اس صورت میں عبدُا لقادِر کو قادِر کہہ کر پکارنا بُرا ہے ۔ مگر قدیر کا اِطلاق غیرِ خدا پر ناجائز ۔ کمافِی الْبَیْضاوی (جیسا کہ بَیضاوی میں ہے ) اور اگر کسی کا نام عبدالقدوس، عبد الرحمٰن ، عبدالقیوم ہے تو اسے قدوس، رحمٰن، قیوم کہنا ایسا ہی ہے جیسے اُسے (کہ) جس کانام عبداللہ ہو(اُس کو) ’’ اللہ ‘‘ کہنا بَہُت سخت بات ہے ۔ والعِیاذُ بِااللّٰہ تعالٰی ۔ جس کا نام عبدُالقادِر ہو اُسے بھی عبدُالقادِر ہی کہا جائے ، جس کا عبدُالقدیر اسے عبدُالقدیر ہی کہنا ضَرور ہے ۔ عبدُالرَّزّاق کو عبدُالرّزّاق، عبدُالمُقْتَدِر کو عبدُالمُقتَدِر ۔ غیر پر اطلاقِ قَدیر و مُقتَدِر(یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کے علاوہ کسی غیر کو قدیر اور مقتدر کہہ سکتے ہیں یا نہیں اِس مسئلے ) میں عُلما کااِختِلاف ہے ۔ کَمَافِی غَایَۃِ الْقاضی حاشیہ شَرحُ الْبَیْضاوی ۔ (فتاوٰی مصطفویہ ص۸۹ ۔ ۹۰)
’’ نہ خدا ہی مِلا نہ وِصالِ صَنَم ‘‘ کہنا کیسا ؟
سُوال : جب آدمی کسی کام میں ناکام ہو جاتا ہے تو بعض اوقات اپنے بارے میں بول پڑتا ہے : ’’ نہ خدا ہی ملا نہ وِصالِ صَنَم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے ۔ ‘‘
جواب : یہ محاورہ بولنے سے بچنا چاہئے ۔ اِس کے ابتِدائی الفاظ کے معنیٰ یہ بنیں گے کہ ’’ نہ خدا کا قُرب نصیب ہوا اور نہ ہی صَنَم کے قریب ہو سکے ۔ ‘‘ کُتب ِلُغَت کے اِعتِبار سے صَنَم کے معنیٰ بُت بھی ہے اور محبوب بھی ۔
پیر صاحِب اور مزارات کے بارے میں سُوال جواب
اپنے پیر کو نبی سے بڑھ کر کہنا
سُوال : ایک جاہِلہ عورت کا کہنا ہے : ’ ’(مَعاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ) ہمارے مُرشِد حُضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے بڑھ کر ہیں ۔ ‘‘ اور کہتی ہے : امام اَحمد رضا کیا ہیں ! صِرْف عاشقِ رسولصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہی تو ہیں ۔ اس بارے میں کیا حُکْم ہے ؟
جواب : پہلے جملہ میں اُس جاہِلہ نے اپنے پیر کو مَعاذَ اللّٰہ سرکار ِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے افضل قرار دیا ہے جو کہ صریح کُفرہے ۔
واہ کیا بات اعلٰی حضرت کی
میر ے آقا اعلٰیحضرت، اِمامِ اَہلسنّت، ولیٔ نِعمت، عظیمُ البَرَکت، عظیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسالت، امامِ عشق و مَحَبَّت، مُجَدِّدِ دین ومِلَّت، حامِیِٔ سنّت ، ماحِیِٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت ، پیرِ طریقت، آفتابِ وِلایت، باعثِ خَیْر وبَرَکت، حضرتِ علّامہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن بے شک زبردست عاشقِ رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے مگر ساتھ ہی ساتھ زبردست عالِم دین، قاری و حافِظ، مفتی اور ولیٔ کامل بھی تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ تقریباً پچاس عُلوم پر دَسْتْرَس(دَسْتْ ۔ رَسْ) رکھتے تھے ، جدید ترکیب کے مطابِق آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مبارَک فتووں پرمُشتَمِل فتاوٰی رضویہ شریف تقریباً30 جِلدوں میں زیورِطَبع سے آراستہ ہو چکی ہیں ۔ میری ناقِص رائے میں یہ اُردو زبان میں دنیا کے ضَخیم ترین فتاوٰی ہیں جو کہ صرف ایک ہی مفتی نے جاری فرمائے ہیں یہ تقریباً بائیس ہزار (22000)صَفَحات، چھ ہزار آٹھ سو سینتا لیس (6847) سُوالات کے جوابات اور دو سو چھ (206)رسائل پرمُشتَمِل ہیں ۔ جبکہ ہزارہا مسائل ضِمناً زیرِ بَحث آ ئے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے دَور کے عُلَمائے حَرَمَیْنِ طَیِّبَیْنرَحِمَہُمُ اللّٰہُ تعالٰینے آپ رَحْمَۃُ