کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

(عالمگیری ج۲ ص ۲۷۰ )

عالِم و علمِ دین کی توہین کے بارے میں   سُوال جواب

سُوال :   ’’ میں   علمِ دین کیوں   حاصِل کروں   !  ‘‘  کہنا کیسا ہے ؟

جواب : علمِ دین کو گھٹیا جانتے ہوئے ایسا کہناکفر ہے ۔  حضرتِ مُلّا علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں   : اگر کسی نے کہا :  ’’  میں   کیوں   عِلم سیکھوں  !  ‘‘  یہ کُفرِیّہ قول ہے جبکہ کہنے والے نے عِلْم کو حقیر سمجھایا اُس نے اِعتِقاد کیا کہ اسے عِلم کی کوئی حاجت نہیں  ۔ (منح الروض  ص۴۷۲) یہاں   ’’  علم ‘‘  سے مُرادعلمِ دین ہے ۔  جو لوگ علمِ دین کو اَھَمِّیَّت نہیں   دیتے اُن کیلئے اِس میں   عبرت ہی عبرت ہے ۔

کون کون سے مسائل کس کس پر سیکھنا فرض ہے ۔

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  افسوس !  آج کل صِر ف و صِرف دنیاوی عُلوم ہی کی طرف ہماری اکثریَّت کا رُجحان ہے علمِ دین کی طرف بَہُت ہی کم مَیلان ہے ۔  حدیثِ پاک میں  ہے : طَلَبُ العِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ۔ یعنی عِلم کا طَلَب کرنا ہرمسلمان مرد (و عورت ) پرفرض ہے  ( سُنَن ابن ماجہ ج۱ ص ۱۴۶ حدیث ۲۲۴) اِس حدیثِ پاک کے تحت میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے جو کچھ فرمایااس کا آسان لفظوں   میں   مختصراً خُلاصہ عرض کرنے کی کوشِش کرتا ہوں   ۔ سب میں  اولین و اہم ترین فرض یہ ہے کہ بُنیادی عقائد کا علم حاصِل کرے جس سے آدمی صحیح العقیدہ سُنّی بنتا ہے اور جن کے انکار و مخالَفَت سے کافِر یا گُمراہ ہو جاتا ہے ۔  اِس کے بعد مسائلِ نَماز یعنی اِس کے فرائض و شرائط و مُفسِدات (نماز توڑنے والی چیزیں  ) سیکھے تاکہ نَماز صحیح طور پر ادا کر سکے ۔  پھر جب رَمَضانُ الْمبارَک کی تشریف آوری ہو تو روزوں   کے مسائل ، مالِکِ نصابِ نامی ( یعنی حقیقۃً یا حکماً بڑھنے والے مال کے نِصاب کا مالک) ہو جائے توزکوٰۃ کے مسائل، صاحِبِ اِستِطاعت ہو تو مسائلِ حج، نِکاح کرنا چاہے تو اِس کے ضَروری مسائل ، تاجِر ہو تو خرید و فروخت کے مسائل، مُزارِع یعنی کاشتکار(اورزمیندار) پرکھیتی باڑی کے مسائل، ملازِم بننے اور ملازِم رکھنے والے پر اجارہ کے مسائل ۔  وَ عَلٰی ھٰذَاالْقِیاس( یعنی اور اِسی پر قِیاس کرتے ہوئے ) ہرمسلمان عاقِل و بالِغ مردوعورت پر اُس کی موجودہ حالت کے مطابِق مسئلے سیکھنا فرضِ عین ہے ۔  اِسی طرح ہر ایک کیلئے مسائلِ حلال و حرام بھی سیکھنا فرض ہے ۔  نیز مسائلِ قلب( باطنی مسائل) یعنی فرائضِ قَلْبِیَّہ ( باطنی فرائض) مَثَلاً عاجِزی و اِخلاص اور توکُّل وغیرہا اور ان کو حاصِل کرنے کا طریقہ اور باطِنی گناہ مَثَلاً تکبُّر ، رِیاکاری، حَسَد  وغیرہااور ان کا عِلاج سیکھنا ہر مسلمان پر اہم فرائض سے ہے ۔                                            (ماخوذاز فتاوٰی رضویہ ج۲۳ ص ۶۲۳، ۶۲۴)

 ’’ عید کا چاند  نکالنا تومولویوں   کا کام ہے  ‘‘ کہنا کیسا ؟

سُوال :  بعض لوگ کہتے ہیں   :  ’’ رَمَضانُ الْمُبارَک یا عید کا چاند نکالنا تو مُلّا مَولویوں   کاکام ہے ۔  ‘‘  کیا ایسا کہنا جائز ہے ؟

جواب :  اِس جملے میں   عُلَماء کی توہِین کا پہلو بھی ہے اگر واقعی توہین کے طور پر کہا تو کفر ہے ۔

عُلَماء کی توہین کے حیا سوز انداز

            آج کل بعض لوگ بات بات پر عُلَمائے کِرام کے بارے میں   توہین آمیز کلمات بک دیا کرتے ہیں  ، مَثَلاًکہتے ہیں   : بھئی ذرا بچ کر رہنا  ’’  عَلّامہ صاحِب ‘‘  ہیں  ، عُلَماء لالچی ہوتے ہیں  ، ہم سے جَلتے ہیں  ، ہماری وجہ سے اب ان کا کوئی بھاؤ نہیں   پوچھتا ، چھوڑو چھوڑو یہ تو مولوی ہے ۔  (معاذاللہ  عالموں  کو بعض لوگ حقارت سے کہدیتے ہیں   )یہ مُلّا لوگ ۔  عُلَماء نے (مَعاذَاللہ  ) سُنّیت کا کوئی کام نہیں   کیا ۔ ( بعض اوقات مبلِّغ کا بیان سن کرنا پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے معاذاللہ کہہ دیا   جا تا ہے ) فُلاں   کا اندازِ بیان تو مولویوں   والا ہے وغیرہ وغیرہ  ۔

عالم کی توہین کب کفر ہے اور کب نہیں 

            عالم کی تَوہین کی تین صورَتیں   اور ان کے بارے میں   حکمِ شَرْعی بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 21 صَفْحَہ129 پرفرماتے ہیں    : {1} اگر عا لمِ (دین) کو اِس لئے بُرا کہتا ہے کہ وہ  ’’ عالم  ‘‘  ہے جب تو صَریح کافِر ہے اور {2} اگر بوجہِ عِلم اُس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کِسی دُنیوی خُصُومت (یعنی دشمنی) کے باعِث بُرا کہتا ہے ، گالی دیتا (ہے اور) تحقیرکرتا ہے تو سخت فاسِق فاجِر ہے اور{3} اگر بے سبب(یعنی بِلاوجہ ) رنج (بُغض )  رکھتا ہے تو مَرِیْضُ الْقَلْبِ وَ خَبِیْثُ الْباطِن ( یعنی دل کا مریض اور ناپاک باطن والا ہے )اور اُس (یعنی خواہ مخواہ بُغُض رکھنے والے ) کے کُفْرکا اندیشہ ہے ۔  ’’ خُلاصہ  ‘‘ میں   ہے  : مَنْ اَبْغَضَ عَالِماً مِّنْ غَیْرِ سَبَبٍ ظَاھِرٍ خِیْفَ عَلَیْہِ الْکُفْریعنی جو بِلا کسی ظاہِری وجہ کے عالم ِدین سے بُغض رکھے اُس پر کُفرکا خوف ہے ۔ (خُلاصَۃُ الفتاوٰی ج۴ص۳۸۸)

عالِمِ بے عمل کی توہین

سُوال :  کیا عالِم ِبے عمل کی توہین بھی کفر ہے ؟

جواب :  بسَبَبِ علمِ دین عالمِ بے عمل کی توہین کرنا بھی کُفر ہے ۔  عالمِ بے عمل بھی علمِ دین کی وجہ سے جاہِل عبادت گزار سے بَدَرَجَہا افضل و بہتر ہے ۔  میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں   : اور قراٰن شریف انھیں   (یعنی عُلمائے حق کو) مُطلَقاً وارِث بتا رہا ہے ، حتّٰی کہ ان(میں  ) کے بے عمل