کنزالایمان : کیا لوگ اِس گَھمَنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیئے جائیں کہ کہیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہوگی) میں گزرا ۔ اسلام اگرفَقَط کلمہ گوئی کانام تھا تو بیشک (کلمہ گوئی تو) حاصِل تھی پھر لوگوں کا گَھمَنڈ کیوں غَلَط تھا جسیقرآنِ عظیم رَدّ فرمارہاہے ! نیز تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ( پارہ 26 سورۃُ الحُجُرٰات کی آیت نمبر 14میں )فرماتا ہے :
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاؕ-قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِكُمْؕ-
ترجَمۂ کنزالایمان : گنوار بولے : ہم ایمان لائے ۔ تم فرماؤ : تم ایمان تو نہ لائے ہاں یوں کہو کہ مُطیع ہوئے اورابھی ایمان تمہارے دلوں میں کہاں داخِل ہوا !
اور (پارہ 28سورۃُ المُنٰفِقُون کی آیت نمبر 1میں اللّٰہُ رَبُّ العباد ارشاد ) فرماتا ہے :
اِذَا جَآءَكَ الْمُنٰفِقُوْنَ قَالُوْا نَشْهَدُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُ اللّٰهِۘ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُوْلُهٗؕ-وَ اللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَكٰذِبُوْنَۚ(۱)(پ ۲۸ المنافقون۱)
ترجَمۂ کنزالایمان : جب مُنافِق تمہارے حُضُور حاضِر ہوتے ہیں کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حُضُور بیشک یقینا اللّٰہ کے رسول ہیں اور اللّٰہ جانتا ہے کہ تم اس کے رسول ہواور اللّٰہ گواہی دیتا ہے کہ مُنافِق ضَرور جھوٹے ہیں ۔
دیکھو(منافِقین کی) کیسی لمبی چَوڑی کلمہ گوئی ، کیسی کیسی تاکیدوں سے مُؤَکَّد ، کیسی کیسی قَسموں سے مُؤَیَّد(مگر) ہر گز(ان کی کلمہ گوئی ) مُوجِبِ (یعنی باعثِ) اسلام نہ ہوئی اور اللّٰہُ واحِدِقَہّار(عَزَّوَجَلَّ ) نے ان کے جھوٹے کذّاب ہونے کی گواہی دی تو مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ دَخَلَ الْجَنَّۃ( جس نیلَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہکہاوہ داخِلِ جنّت ہوگا) کا یہ مطلب گھڑنا (کہ اب کسی قول وفِعل کی وجہ سے کافِر ہوہی نہیں سکتا)صَراحَۃً(یعنی کھلّم کُھلا ) قراٰنِ عظیم کا ردّ کرنا ہے ۔ ہاں جو کلمہ پڑھتا ہے ، اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہوہم اسے مسلمان جانیں گے جب تک اس سے کوئی کلمہ ، کوئی حرکت ، کوئی فعل مُنافیِٔ اسلام (یعنی جب تک اس سے کسی قسم کاقَطعی کفر ) صادِر نہ ہو ۔ بعد صُدور ِمُنافی(یعنی اگرقَطعی کفر صادِر ہوا تو پھر ) ہرگز کلمہ گوئی کام نہ دے گی ۔ (پارہ 10سورۃُ التَّوبہ آیت نمبر74 میں ) تمہارا رب عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ مَا قَالُوْاؕ-وَ لَقَدْ قَالُوْا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِهِمْ
ترجَمۂ کنزالایمان : اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انہوں نے نہ کہا، اور بے شک ضَرور اُنہوں نے کفر کی بات کہی اور اسلام میں آکر کافر ہو گئے ۔
اِبْنِ جَرِیْر وَطَبَرَانِی وَ اَبُوالشَّیْخ وَاِبْنِ مَرْدَوَ یْہ عبداللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت کرتے ہیں : رَسُوْلُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ایک پَیْڑ کے سائے میں تشریف فرما تھے ، ارشاد فرمایا : عنقریب ایک شخص آئے گا تمہیں شیطان کی آنکھوں سے دیکھے گا وہ آئے تو اُس سے بات نہ کرنا ۔ کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ ایک کَرَنجی(یعنی نیلی)آنکھوں والا سامنے سے گزرا، رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اسے بلا کر فرمایا : ’’ تو اور تیرے رفیق(ساتھی) کس بات پر میری شان میں گستاخی کے لَفظ بولتے ہیں ؟ ‘‘ وہ گیا اور اپنے رفیقوں (ساتھیوں )کو بلا لایا ۔ سب نے آ کر قسمیں کھائیں کہ ہم نے کوئی کلمہ حُضُور کی شان میں بے ادَبی کا نہ کہا ۔ اِس پراللّٰہعَزَّوَجَلَّ نے یہ(پارہ 10 سورۃُ التَّوبہ کی 74 ویں ) آیت اُتاری کہ ’’ خُدا کی قسم کھاتے ہیں کہ اُنہوں نے گستاخی نہ کی اوربیشک ضَرور ، یہ کُفر کاکلمہ بولے اور تیری شان میں بے ادَبی کر کے اسلام کے بعد کافِر ہو گئے ۔ ‘‘ دیکھو اللّٰہ گواہی دیتا ہے کہ نبی کی شان میں بے ادَبی کا لفظ ، کلمۂ کُفر ہے اور اس کا کہنے والا اگر چِہ لاکھ مسلمانی کا مُدَّعی (یعنی دعویٰ کرنے والا) کروڑبار کلمہ گو ہو، (مگر) کافِر ہوجاتا ہے ۔ (تمہید الایمان مع حاشیہ ص ۵۶ ۔ ۵۷، ۹۰ ۔ ۹۳)
کیا اہلِ قبلہ کو بھی کافِرکہا جا سکتا ہے ؟
سُوال : کہتے ہیں اہلِ قبلہ کی تکفیر تو ہوہی نہیں سکتی کیوں کہ حدیثِ پاک میں واضِح طور پر فرمادیا گیاہے کہ ’’ جو ہماری نَماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کومنہ کرے اور ہمارا ذَبیحہ کھائے وہ مسلمان ہے ۔ ـ ‘‘ (بخاری ج۱ ص۱۵۴ حدیث۳۹۱)
جواب : بے شک حدیثِ پاک حق حق اور حق ہے لیکن اس کے معنیٰ ہرگز یہ نہیں کہ اہلِ قِبلہ کہلانے والوں کو ہر طرح کے کفرِیّات بکنے کی کُھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ۔ شارحِ بخاری حضرتِ علّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : اہل قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان تمام باتوں کو حق کہتے اور مانتے ہوں جو حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، اللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے لائے ہیں اور ضروریات دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہ کرتے ہوں جو شخص اپنے کو مسلمان کہلاتا ہے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے مگر ضروریا ت دین میں سے کسی کا انکار کرتا ہے وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ۔ سیِّدُنا امامِ اعظم ابو حنیفہ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ہم اہلِ سنَّت ، اہلِ قبلہ کو کافِر نہیں کہتے ۔ اس سے مراد اہلِ قبلہ بمعنی مذکور(یعنی جو معنی پچھلی سطور میں بیان کئے گئے ) ہیں اس لئے قادیانی وغیرہ جو کہ ضروریاتِ دین کا انکار کرتے ہیں ان کوضَرور کافِر کہا جائے گا ۔ (نزھۃ القاری ج۲ص۱۰۷)میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں : اصطِلاحِ ائمہّ میں اہلِ قبلہ وہ ہے کہ تمام ضَروریات دین پر ایمان رکھتا ہو، ان میں ایک بات کا بھی منکر ہو توقَطعاً اِجماعاًکافِرمُرتد ہے ایسا کہ جو اسے کافر نہ کہے خود کافر ہے ۔ (تمہید الایمان ص۱۰۳)
میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت مزید فرماتے ہیں : کلمہ پڑھنے والے گستاخانِ خدا ومصطَفٰے کا رَدّ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : مسلمانو ! اِس