قَول(بات) یا فعِل(کام) اُس سے سَرزَد نہ ہو ۔ البتّہ نِفاق یعنی مُنافَقَت کی ایک شاخ اِس زمانے میں بھی پائی جاتی ہے کہ بَہُت سے بد مذہب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور دیکھا جائے تو اسلام کے دعوے کے ساتھ ساتھ بَہُت سے ضَرور یا تِ دین کا انکار بھی کرتے ہیں ۔ ( بہارِ شریعت حصّہ اوّل ص ۹۶مُلَخَّصاً )
سُوال : مُرتَد کسے کہتے ہیں ؟
جواب : مُرتَد وہ شخص ہے کہ اسلام کے بعد کسی ایسے اَمر کا انکار کرے جو ضَرور یا تِ دین سے ہو ۔ یعنی زَبان سے کلِمۂ کفر بکے جس میں تاویلِ صحیح کی گُنجائش نہ ہو ۔ یوہیں بعض اَفعال(کام) بھی ایسے ہیں جن سے کافر ہوجاتا ہے مَثَلاً بُت کو سجدہ کرنا، مُصحَف شریف (قراٰنِ پاک )کو نَجاست کی جگہ پھینک دینا ۔ (بہارِ شریعتحصّہ ۹ ص۱۷۳ )
کُفر کی اَقسام اور تکفیر کے بارے میں سُوال جواب
سُوال : کَلماتِ کُفر کی کتنی قسمیں ہیں ؟
جواب : کَلِماتِ کُفرکی دوقِسمیں ہیں (۱) لُزُومِ کُفْر(۲)اِلتِزامِ کفر ۔ چُنانچِہصَدْرُالشَّرِیْعَہ ، بَدْرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : اقوالِ کُفریہ دو قسم کے ہیں (۱) ایک وہ جس میں کسی معنیٔ صحیح کا بھی اِحتِمال (یعنی پہلو) ہو(۲) دوسرے وہ کہ اس میں کوئی ایسے معنیٰ نہیں بنتے جو قائل کو کُفر سے بچاوے ۔ اِس میں اوّل کو لُزُومِ کُفْر کہا جاتا ہے اور قسم دُوُ م کواِلْتِزامِ کُفر ۔ لُزُومِ کفرکی صورت میں بھی فُقَہائے کرام( رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السّلام)نے حکمِ کُفر دیا مگر مُتَکَلِّمِین([1])( رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المُبِین) اِس سے سُکوت کرتے (یعنی خاموشی اختیار فرماتے )ہیں ۔ اور فرماتے ہیں جب تک اِلتِزام کی صُورت نہ ہو قائل کو کافِر کہنے سے سُکوت کیا جائیگا اور اَحوَط(یعنی زِیادہ محتاط) یِہی مذہبِ مُتَکَلِّمِین( رَحِمَہُمُ اللّٰہ المُبین) ہے ۔ واللہ اعلم ۔ (فتاوٰی امجدیہ ج۴ ص ۵۱۲، ۵۱۳)
سُوال : لُزُومِ کُفْر اور التزام کُفر کی مزید تفصیل بیان کردیجئے ۔
جواب : لُزُومِ کُفْر کی تعریف کا خُلاصہ یہ ہے کہ وہ بات عَینِ کُفْر نہیں مگر کُفْرتک پُہنچانے والی ہے اوراِلْتِزَام کُفْر یہ ہے کہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا صَراحَۃً (یعنی واضح طور پر)خِلاف کرے ۔ چُنانچِہ میرے آقااعلیٰ حضرت ، امامِ اَہْلِ سنّت، مُجَدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لُزُوم واِلْتِزَام کے مُتَعَلِّق فرماتے ہیں : ’’ سَیِّدُالْعٰلَمینَ مُحمَّدُٗ رَّسولُ اللّٰہ(عَزَّوَجَلَّ و) صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جو کچھ اپنے رب(عَزَّوَجَلَّ) کے پاس سے لائے ان سب میں ان کی تصدِیق کرنا اور سچیّ دل سے ان کی ایک ایک بات پر یقین لانا ایمان ہے اور مَعَاذاللّٰہ (عَزَّوَجَلَّ)ان میں سے کسی بات کا جُھٹلانا اور اس میں ادنیٰ شک لانا کُفْر (ہے ) ۔ پھر یہ انکار جس سے خدا مجھے اور سب مسلمانوں کو پناہ دے ، دو طرح ہوتا ہے (۱) لُزُومی و(۲) اِلْتِزَامی ۔ اِلتِزَامی یہ کہ ضروریاتِ دین سے کسی شئے کا تَصرِیحاً (یعنی صاف صاف)خِلاف کرے یہ قَطْعاً اِجماعاً کُفر ہے اگرچِہ(خِلاف کرنے والا) نامِ کُفْر سے چِڑے اور کمالِ اسلام کا دعوٰی کرے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے طائِفۂ تالِفَۂنَیا چَرہ ( یعنی ہلاک وبرباد ہونے والے نَیچری فرقہ والوں ) کا ، وُجُودِ مَلَک و جِنّ و شیطان و آسما ن و نارو جِنَان و مُعجِزاتِ انبیاء علیہم اَفْضَلُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے اُن مَعانی پر کہ اہلِ اسلام کے نزدیک حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے مُتَوَاتِرہیں انکار کرنا اور اپنی تأوِیلاتِ باطِلَہ و تَوَہُّماتِ عاطِلہ (یعنی جھوٹی تاویلوں اور خالی وَہموں ) کو لے مرنا ۔ نہ ہرگز ہرگز ان تاویلوں کے شَوشے انہیں کُفْرسے بچائیں گے ، نہ مَحَبَّتِاسلام و ہمدرد ی کے جھوٹے دعوے کا م آئیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور لُزُومی یہ کہ جو بات اس نے کہی عینِ کُفْرنہیں مگرمُنْجِربِکُفر (یعنی کُفْر کی طرف لے جانے والی ) ہوتی ہے ، یعنی مَآلِ سُخَن ولازِمِ حُکْم کوترتیبِ مُقدَّمات و تَتْمِیمِتَقریبات کرتے لے چلئے تو انجامِ کار اس سے کسی ضَروریٔ دین کا انکار لازِم آئے ۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہج ۱۵ ص ۴۳۱)
اعلٰی حضرت کے فتوے کا آسان لفظوں میں خلاصہ
سُوال : سرکارِ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے مبارَک فتوے کے بیان کردہ اقتِباس کاآسان لفظوں میں خلاصہ کر دیجئے ۔
جواب : میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اَہلِ سنّت، مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن اپنے مبارَک فتوے کے مذکورہ اقتِباس میں ایمان و کفر کی تعریف بیان کرنے کے بعد کفر کی دو اقسام لُزُوم و اِلتِزام(اِلْ ۔ تِ ۔ زام) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : (۱) اِلتِزامِ کفر یعنی ضَروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی خِلاف کرنا ۔ چاہے وہ خلاف کرنے والا بظاہر اسلام کا کیسا ہی شیدائی بنتا ہو اور بے شک کفر کے نام سے چِڑتا ہو مگر اس پر حکمِ کفر <