کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

            ایک طویل حدیثِ پاک میں   نبیِّ پاک، صاحِب لَولاک، سَیّاحِ اَفلاک  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے یہ بھی ارشاد فرمایا : اولاد آدم مختلف طبقات پر پیدا کی گئی ان میں   سے بعض مومن پیدا ہوئے حالتِ ایمان پر زندہ رہے اور مومن ہی مریں   گے ، بعض کافر پیدا ہوئے حالتِ کفر پر زندہ رہے اور کافِر ہی مریں   گے جبکہ بعض مومِن پیدا ہوئے مومِنانہ زندگی گزاری اور حالتِ کفر پر رخصت ہوئے بعض کافِر پیدا ہوئے ، کافِر زندہ رہے اور مومِن ہو کر مریں   گے ۔  ( سُنَنُ التّرمذی ج۴ ص ۸۱ حدیث ۲۱۹۸ )

شیطان عزیزوں   کے روپ میں   ایمان چھیننے آئے گا

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !   دنیا میں   آنے کوتو ہم آ گئے مگراب دنیا سے ایمان کو سلامت لے جانے کیلئے سخت دشوار گزار گھاٹیوں   سے گزرنا ہوگا اور پھر بھی کچھ نہیں   معلوم کہ خاتِمہ کیسا ہو گا !  

آہ ! آہ ! آہ ! موت کے وَقت ایمان چھیننے کیلئے شیطان طرح طرح کے ہتھ کنڈے استِعمال کریگا حتّٰی کہ ماں   باپ کا رُوپ دھار کر بھی ایمان پرڈاکے ڈالے گا اور یہود ونصاریٰ کو دُرُست ثابِت کرنے کی مذمُوم سعی کرے گا ۔ یقینا وہ ایسا نازُک موقع ہو گا کہ بس جس پراللّٰہُ رَحْمٰنعَزَّوَجَلَّ  کاخاص کرم و اِحسان ہوگا  وُہی کامیاب و کامران ہو گا  اور اسی کا ایمان سلامت رہے گا  ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خانعَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 9صَفْحَہ83 پرفرماتے ہیں   کہ امام اِبنُ الحاج مکّی(الْمَلِکی) قُدِّسَ سرُّہُ  ’’ مَدْخَل ‘‘ میں   فرماتے ہیں  کہ دمِ نَزع دو شیطان ، آدمی کے دونوں   پہلو پر آ کر بیٹھتے ہیں   ایک اُس کے باپ کی شکل بن کر دوسرا ماں   کی ۔ ایک کہتا ہے  : وہ شخص یہودی ہو کر مرا تُو(بھی) یہودی ہو جا کہ یہود وہاں   بڑے چَین سے ہیں  ۔ دوسرا کہتا ہے :  وہ شخص نصرانی(یعنی کرسچین ہو کر دنیا سے ) گیا تُو(بھی) نصرانی (کرسچین )ہو جا کہ نصارٰی (کرسچین )وہاں   بڑے آرام سے ہیں   ۔ (المد خَل لابن الحاج  ج۳ ص ص۱۸۱)

 واقِعی مُعامَلہ بڑا نازُک ہے ، بربادیٔ ایمان کے خوف سے خائِفین کے دل ٹکرے ٹکرے ہو جاتے ہیں   ۔

فکرِ مَعاش بد بلا ہَولِ مَعاد جانگُزا

                             لاکھوں   بلا میں   پھنسنے کو روح بدن میں   آئی کیوں  (حدائقِ بخشش شریف)

پیدا نہ ہونے والا قابلِ رَشک ہے

             حدیثِ مبارَک میں   کثرتِ اُمّت کی ترغیب دلائی گئی ہے اورہمارے پیارے پیارے آقامصطَفٰے جانِ رحمتصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  بروزِ قیامت اِس اُمّت کے کثیر ہونے پر خوش ہونگے اور دیگر اُمَّتوں   پر فَخر کریں   گے لہٰذا اولاد کے حُصُول کی خواہش میں   دنیا وآخِرت کی بھلائی پانے کے لئے اچّھی اچّھی نیتَّیں   کرنی چاہئیں   لیکن آج دنیا میں   جو بے اولاد ہو تا ہے وہ عُمُوماً خوب دل جلاتا ہے اور بچّہ پانے کیلئے نہ جانے کیسے کیسے جتن کرتا ہے ۔  اگر اس کا مَطْمَحِنظر (یعنی مقصدِ اصلی)فَقَط گھر کی زینت اور دُنیا کی راحت ہے ، حُصولِ اولاد سے مقصود آخِرت کی مَنفَعت کی کوئی اچّھی نیّت نہیں  ، تو ایسا بے اولاد آدَمی نادانِستہ طور پر گویا ’’  کسی  ‘‘ کے دُنیا میں  پیدا ہو نے اور پھر بَہُت بڑے امتحان میں   مبتَلا ہونے کی آرزو کر رہا ہے ! میری یہ بات شاید وُہی شخص سمجھ سکتا ہے جو ’’  بُرے خاتمے کے خوف  ‘‘  میں   مُبتلا ہو ۔  ایک خائف بُزُرگ حضرتِ سیِّدُنافُضَیل بن عیاض رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے فرمان کا خُلاصہ ہے :  ’’  مجھے بڑے سے بڑے نیک بندے پر بھی رشک نہیں   آتا ، جوکہ قِیامت کی ہولناکیوں   کا مُشاہَدہ کرے گا، مجھے صِرف اُس پر رَشک آتا ہے جو  ’’ کچھ بھی  ‘‘ نہ ہو ۔  ‘‘ (یعنی پیدا ہی نہ ہو)(حِلیَۃُ الاولیاء ج۸ ص ۹۳رقم ۱۱۴۷۰مُلَخَّصاً) امیرُالْمُؤمِنِینحضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے غَلَبۂ خوف  کے وَقت فرمایا :  کاش !  میری ماں   نے ہی مجھ کو نہ جنا ہوتا ! ( الطَّبقاتُ الکُبریٰ لابنِ سعد ج۳ ص ۲۷۴ ) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔  اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

کاش ! کہ میں   دُنیا میں   پیدا نہ ہُوا ہو تا           قبر و حَشر کا سب غم ختم ہو گیا ہو تا

آہ  ! سَلبِ ایماں   کا خوف کھا ئے جا تا ہے         کا ش ! میری ماں   نے ہی مجھ کو نہ جنا ہوتا

قابلِ رشک وُہی ہے جو قَبر کے اندر مومِن ہے

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  دنیا میں   جیتے جی مومِن ہونا یقیناباعثِ سعادت ہے مگر یہ سعاد ت حقیقت میں   اُسی صورت میں   سعادت ہے کہ دنیا سے رخصت ہوتے وَقت ایمان سلامت رہے ۔  خدا کی قسم ! قابِلِ رشک وُہی ہے جو قَبْرکے اندر بھی مومِن ہے ۔  جی ہاں  جو دُنیا سے ایمان سلامت لے جانے میں   کامیاب ہوا وُہی حقیقی معنوں   میں   کامیاب اور جو جنّت کوپا لے وُہی بامُراد ہے ۔  چُنانچِہ پارہ 4 سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر 185 میں   ارشاد ہوتا ہے :

فَمَنْ  زُحْزِحَ  عَنِ  النَّارِ  وَ  اُدْخِلَ  الْجَنَّةَ  فَقَدْ  فَازَؕ-وَ  مَا  الْحَیٰوةُ  الدُّنْیَاۤ  اِلَّا  مَتَاعُ  الْغُرُوْرِ(۱۸۵)

ترجمۂ کنزالایمان :  جو آگ سے بچا کر جنّت میں   داخِل کیا گیا وہ مُراد کو پہونچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے ۔

میرا نازُک بدن جہنَّم سے                             بہرِ غوث و رضا بچا یا رب

کر جوارِ رسول جنّت میں                                اپنے عطارؔ کو عطا یا رب

بُری صحبت ایمان کیلئے خطرناک ہے

        میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !  بُری صُحبت ایمان کیلئے بَہُت خطرنا ک  ہے ۔ افسوس ! صدکروڑافسوس ! اس کے باوُجُود ہم بُرے دوستوں   سے باز نہیں   آتے ، گپ شپ کی بیٹھکوں   

Index