کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

ہیں  غُلام آپ کے جتنے کرو دُور اُن سے فتنے

بُری موت سے بچانا مدنی مدینے والے

ایمان پر موت آتی ہو تو آج اورابھی آجائے  !

            آہ ! آہ ! آہ ! دل پر بھی تو قابو نہیں  ، یہ بھی کبھی تولہ ہے تو کبھی ماشہ ۔  ابھی جذبات کچھ ہیں   تو چند لمحات کے بعد کچھ ہوں   گے  ۔ کاش !  ایمان کی حفاظت کے جذبے پر استِقامت ملتی  ۔ صدکروڑ کاش !  عافیّت کے ساتھ ایمان پر موت کی تڑپ کو دنیا میں   آسان زندَگی گزارنے کے ارمان پر سبقت حاصِل ہو جاتی ۔ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت ِسیِّدُنا امام محمدبن محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی سے منقول کردہ ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ارشاد کا خُلاصہ ہے  : اگر ایمان پر موت میرے اپنے کمرۂ خاص کے دروازے پر مل رہی ہو اور شہادت عمارت کے صدر دروازہ (MAIN ENTRANCE)  پرمُنتِطر ہو تو شہادت اگر چِہ اعلیٰ دَرَجہ کی سَعادت ہے مگر میں   کمرہ کے دروازے پر ملنے والی ایمان پر موت کو فوراً قبول کر لوں   گاکہ کیا معلوم عمارت کے صدر دروازے تک پہنچتے پہنچتے میرا دل بدل جائے اور میں  ایمان پر ملنے والی موت کے شَرَف سے ہی محروم ہو جاؤں  ! ( اِحیاء الْعلوم ج۴ ص ۲۱۱مُلَخَّصاً)

مریضِ مَحَبَّت کا دم ہے لبوں   پر

                     سِرہانے اب آجاؤ شاہِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  

دل میں   کبھی ایمان تو کبھی نِفاق

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! دل کو  ’’  قَلْب  ‘‘  اِسی لئے کہتے ہیں   کہ یہ جب دیکھو مُنقَلِب(مُن ۔ قَ ۔ لِب) ہوجاتا یعنی بار بار بدلتا رہتا ہے ، رات کودل میں   آتا ہے کہ کل سے خوب عبادتیں   اور رِیاضتیں   کروں   گا مگرصبح کو یِہی دل بدل کر گناہوں  کے دَلدَل میں   ڈالدیتا ہے ۔  کبھی دل پر خوفِ خدا سے کپکپی طاری ہو جاتی اور آنکھوں   سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں  تو کبھی گناہوں   کی ایسی ضِد چڑھ جاتی ہے کہ الامان وَالحفیظ ۔  حضرتِ سیِّدُنا حُذَیفہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ جو کہ مُنافِقین اور اَسبابِ نِفاق کے علم کے ماہر تھے ۔ آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرمایا کرتے :  دل پر کبھی تو ایسی گھڑی آتی ہے کہ وہ ایمان سے بھر جاتا ہے حتّٰی کہ اس میں   سُوئی کی نوک جتنی بھی نِفاق کے لیے گُنجائش باقی نہیں   رہتی اور کبھی اس پر ایسی گھڑی وارِدہوتی ہے کہ وہ مُنافَقَت سے پُر ہو جاتا ہے اور اس میں   سُوئی کی نوک جتنی جگہ بھی ایمان کے لیے باقی نہیں  بچتی ۔ (اِحیائُ العلوم  ج۴ ص ۲۳۱ مُلَخَّصاً) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔   

                               اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      

مِرا دل ہو پُر حُبِّ جاناں   سے یا ربعَزَّوَجَلَّ                                                                        بچا ہر گھڑی جُرم و عِصیاں   سے یا ربعَزَّوَجَلَّ

میں   دُنیا سے جس دم چلوں   جاں   سے یا ربعَزَّوَجَلَّ                                          نہ خالی ہو دل میرا ایماں   سے یا ربعَزَّوَجَلَّ

    جھوٹی خوشامد سے دینداری جاتی رہتی ہے  !

           صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہحضرتِ  علّامہ مولیٰنامفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی  ارشاد فرماتے ہیں  : نفاق کہ زَبان سے دعویٔ اسلام کرنا اور دل میں   اسلام سے انکار، یہ بھی خالِص کفر ہے ، بلکہ ایسے لوگوں   کے لیے جہنَّم کا سب سے نیچے کا طبقہ ہے ۔ حُضُورِاقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانۂ اقدس میں   کچھ لوگ اِس صِفَت کے اس نام کے ساتھ مشہور ہوئے کہ ان کے کُفرِ باطِنی پر قرآن ناطِق ہوا، نیز نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے وسیع عِلم سے ایک ایک کو پہچانا اور فرما دیا کہ یہ مُنافِق ہے ۔ اب اِس زمانہ میں   کسی خاص شخص کی نسبت، قطع کے ساتھ(یعنی یقینی طور پر) مُنافِق نہیں   کہا جاسکتا، کہ ہمارے سامنے جو دعویٔ اسلام کرے ہم اس کو مسلمان ہی سمجھیں   گے ، جب تک اس سے وہ قول یافِعل جو مُنافِیٔ ایمان(یعنی ایمان کے خلاف) ہے نہ صادِر ہو ۔ ( بہارِ شریعتحصّہ اوّل ص ۹۶)

            مُنافَقت کی دوسری قسم نِفاقِ عملی ہے ۔  اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ کام کرے جو مسلمانوں   کے شایانِ شان نہ ہومُنافِقین کے کرتوت ہوں   جیسا کہ ر سولِ اکرم، نُورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم، نبیِّ مُحتَشَمصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     کا فرمانِ عظیم ہے :  : مُنافِق کی تین نشانیاں   ہیں  {۱} جب بات کرے تو جھوٹ بولے {۲} جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور {۳}جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں   خِیانت کرے ۔  (صَحِیحُ البُخارِیّ ج۱ ص ۲۴حدیث ۳۳ )

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! موت کسی بھی لمحے آ سکتی ہے ، اوریہ کس قَدَر تشویش کی بات ہے کہ اگر موت اُس لمحے آئی جس لمحے دل ایمان سے خالی اور نِفاق سے بھر پور ہوا توذراسوچئے تو سہی ہمارا کیا ہو گا افسوس ! اکثرہمارا حال یہ ہو تا ہے کہ دل میں  کچھ اور زَبان پر کچھ، دل کے اندر مُخاطَب(یعنی جس سے بات کی جائے اُس) کے بارے میں   بُغض کے بچّھو بھرے ہوتے ہیں   مگر اُس کے سامنے خوشامدانہ انداز میں   اُس کی تعریف کے پُل باندھتے چلے جاتے ہیں  ، یقینا یہ عملی مُنافَقَت ہے جو کہ اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ  کی ناراضگی کی صورت میں  ایمان کیلئے سخت نقصا ن دِہ ثابت ہوسکتی ہے ۔  چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کے فرمان کا خُلاصہ ہے : بعض اوقات ایک شخص جب گھر سے نکلتا ہے تو دیندار ہوتا ہے مگر جب گھر لوٹتا ہے تو دیندار نہیں   ہوتا ۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ملنے جُلنے والوں  کی خواہ مخواہ تعریفیں   کرتا ہے حالانکہ جس کی تعریف کر رہا ہے وہ شخص مَذَمَّت کا مستِحق

Index