کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب

بیٹھوں   جو درِ پاکِ پَیمبر کے حُضُور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ          ایمان پہ اُس وقت اُٹھانا مولیٰ عَزَّوَجَلَّ

گناہ کرنے سے دل کالا ہو جاتا ہے

        آہ ! گناہوں   کا سلسلہ رُکنے کا نام نہیں   لیتا، مَعصیَّت کی مصیبت جان نہیں   چھوڑتی ، افسوس ! گناہوں   کی عادت نے کچھ ایسا ڈِھیٹ بنا چھوڑا ہے کہ گناہ کرنے سے دل بھی قَطْعاً نہیں   لرزتا،  ہائے ! ہائے ! گناہوں   کی کثرت کی نُحُوست کہیں   بربادیٔ ایمان کاسبب نہ بن جائے ! گناہوں   کے عادیوں   کو خبر دار کرتے ہوئے حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الوالی صالحین رَحِمَہُمُ اللّٰہُ المُبینکا ارشاد ِ عالی نَقل فرماتے ہیں   :  ’’  بیشک گناہ کرنے سے دل کالا ہو جاتا ہے ، اور دل کی سیاہی کی علامت وپہچان یہ ہے کہ گناہوں  سے گھبراہٹ نہیں  ہوتی، اِطاعت کی سعادت نہیں   ملتی اور نصیحت اثر نہیں   کرتی ۔  اے عزیز ! تم کسی بھی گناہ کو معمولی مت سمجھواور کبیرہ گناہوں   پر اِصرار کرنے کے باوُجُود اپنے آپ کو  توبہ کرنے والاگمان نہ کرو ۔  ‘‘  (منہاج العابدین  ص ۳۵)

کر کے توبہ میں   پھر گناہوں   میں                       ہوہی جاتا ہوں   مبتَلا یا رب عَزَّوَجَلَّ

نیم جاں   کر دیا گناہوں   نے                             مرضِ عِصیاں   سے دے شِفا یا رب عَزَّوَجَلَّ

مرنے کے بعد نوجوان بوڑھا ہو گیا ! ! !

            ہائے ! ہمارا یہ نازُک بدن تو نہ گرمی سہہ سکتا ہے نہ ہی سردی ۔  اگر مَعاذَاللّٰہعَزَّوَجَلَّ ایمان برباد ہو گیا تو یہ عذابِ نار کیسے برداشت کر سکے گا ! آہ ! جہنَّم کی ہو لناکیاں  ! ! حضرتِ سیِّدُنا ہَشّام بن حَسّان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان فرماتے ہیں  : میرا ایک بیٹا جوانی کی حالت میں   فوت ہو گیا ۔   بعد از وفات میں   نے اسے خواب میں   دیکھا کہ بوڑھا ہو چکا ہے ۔  میں   نے پوچھا  : اے بیٹے ! تُوبوڑھا کس طرح ہو گیا ؟ تو اُس نے جواب دیا :  جب فُلاں   شخص مرنے کے بعددنیا سے ہمارے پاس پہنچا تو دوزخ نے اُسے دیکھ کر ایک سانس لی جس کی وجہ سے ہم سب ایک پَل میں   بوڑھے ہو گئے !  نَعُوْذُبِاللّٰہِ الرَّحِیْمِ مِنَ الْعَذَابِ الْاَلِیْم ۔  یعنی ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ  جو کہ بڑا مہربان ہے اُس کی پناہ مانگتے ہیں   درد ناک عذاب سے ۔                                                                                                         (منہاج العابدین  ص ۱۶۷)

گر تُو ناراض ہوا میری ہلاکت ہو گی                    ہائے ! میں   نا رِ جہنَّم میں   جلوں   گا یا رب ! عَزَّوَجَلَّ

عَفو کر اور سد ا کے لئے راضی ہوجا                   گر کرم کر دے تو  جنّت میں   رہوں   گا یا رب ! عَزَّوَجَلَّ

جو مومِن ہے وہ خدا سے ڈرے

        اللہ تبارَکَ وَ تعالیٰ پارہ4 سورۂ اٰلِ عِمران آیت نمبر 175 میں   ارشاد فرماتا ہے :  وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُم مُّؤْمِنِیْنَ ۔  

وَ  خَافُوْنِ  اِنْ  كُنْتُمْ  مُّؤْمِنِیْنَ(۱۷۵)   (پ ۴ اٰلِ عمران۱۷۵)

ترجَمۂ کنزالایمان : اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو ۔

کاش ! خوفِ خدا نصیب ہو جائے

            اے کاش ! اِس آیتِ مقدّسہ کے صدقے غفلت کا پردہ چاک ہو جائے اور امّیدِ رحمت کے ساتھ ساتھ ہمیں   صحیح معنوں   میں   خوفِ خدا  بھی مُیَسرآ جائے ، دُنیا کی بے ثَباتی کا حقیقی معنوں   میں   اِحساس ہو جائے ، کاش !  کاش  ! کاش !  بُرے خاتِمے کا ڈر دل میں  گھرکر جائے ، اپنے پروردگار عَزَّوَجَلَّ  کی ناراضگیوں   کا ہر دم دھڑکالگا رہے ، نَزْع کی سختیوں   ، موت کی تلخیوں   ، اپنے غسلِ میِّت و تکفین و تدفین کی کیفیَّتوں  ، قبر کی اندھیریوں   اور وَحشتوں  ، منکَر و نکیر کے سُوالوں  ، قبر کے عذابوں   ، محشر کی گرمیوں  اور گھبراہٹوں   ، پُلصراط کی دَہشتوں  ، بارگاہِ الہٰی کی پیشیوں   ، میدانِ قِیامت میں  چھوٹی چھوٹی باتوں   کی بھی پُرسِشوں   اور سب کے سامنے عیب کھلنے کی رُسوائیوں   ، جہنَّم کی خوفناک چِنگھاڑوں  ، دوزخ کی ہولناک سزاؤں   اور اپنے نازَوں   کے پلے بدن کی نَزاکتوں   ، جنّت کی عظیم نعمتوں   سے محرومیوں   وغیرہ وغیرہ کا خوف ہمیں   بے چین کرتا رہے ۔ اور اے کاش ! یہ خوف ہمارے لئے ہدایت و رحمت کاذَرِیعہ بن جائے جیسا کہ پارہ9 سورۃُ الْاَعراف آیت نمبر 154 میں   ارشادِ ربُّ العِباد ہے  :

هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ هُمْ لِرَبِّهِمْ یَرْهَبُوْنَ(۱۵۴) (پ۹ الاعراف ۱۵۴)

ترجَمۂ کنزالایمان :  ہِدایت اور رحمت ہے ان کیلئے جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں   ۔

زمانے کاڈر میرے دل سے مٹا کر                   توکر خوف اپنا عطا یا الہٰی عَزَّوَجَلَّ

ترے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ             یں   تھر تھر رہوں   کانپتا یا الہٰی عَزَّوَجَلَّ

خوفِ خدا سے  کیا مراد ہے ؟

            میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !   ’’ خوفِ خدا  ‘‘  سے مرادیہ ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکی خفیہ تدبیر، اس کی بے نیازی، اُس کی ناراضگی ، اس کی گرِفت (پکڑ) ، ا س کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں   اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں   ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوف زدہ رہنے کا نام خوفِ خدا ہے ۔ اے کاش  ! ہمیں   حقیقی معنوں   میں   خوفِ خدا نصیب ہو جائے ۔  آہ ! آہ ! آہ !  ہم تو اپنے خاتِمے کے بارے میں   اللّٰہُ قدیر عَزَّوَجَلَّکی خُفیہ تدبیر جانتے ہیں   نہ کبھی جیتے جی جان سکیں  گے ۔ زَبانِ رسالت سے جنّت کی بِشارت کی عظیم سعادت سے بہرہ مَند قَطْعی جنَّتی

Index