سُوال : مشہور ہے کہ اعلیٰ حضرت ساداتِ کرام کی بَہُت زیادہ تعظیم بجا لاتے تھے اس کی اصل وجہ کیا ہے ؟
جواب : ملِکُ الْعُلَماءمولیٰناظَفَرُ الدّین قادری رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ساداتِ کرام جُزء رسول(یعنی نبیِّ پا ک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جسمِ مُنَوَّر کا ٹکڑا) ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ مستحق توقیر و تعظیم ہیں ۔ اور اس پر پورا عمل کرنے والا میں نے اعلیٰ حضرت قُدِّسَ سِرُّہُ العزیز کو پایا ۔ اس لئے کہ کسی سیِّد صاحِب کو وہ اُس کی ذاتی حیثیَّت و لیاقت سے نہیں دیکھتے بلکہ اِس حیثیَّت سے مُلاحَظہ فرماتے کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ’’ جُزء ‘‘ ہیں ۔ پھر اِس اِعتِقاد و نظر یہ کے بعد جو کچھ اِن(ساداتِ کرام) کی تعظیم و توقیر کی جائے سب دُرُست و بجا ہے ۔ اعلیٰ حضرت اپنے قصیدۂ نور میں عرض کرتے ہیں ۔ ؎
تیری نسلِ پاک میں ہے بچّہ بچّہ نور کا تُو ہے عَینِ نور تیرا سب گھرانا نور کا
(حیات اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۷۹) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّتعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
اہلبیت پر ظُلم کرنے والے پر جنّت حرام ہے
سُوال : سیِّدوں پر ظلم کرنا کیسا ہے ؟
جواب : حرام ہے اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے ۔ چُنانچِہسرورِ دو عالم ، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسول مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عِترَتِ پاک (یعنی اولاد)کے بارے میں اَذِیَّت دی ، اُس پر جنَّت حرام کر دی گئی ۔ ‘‘ (الشرف المؤبد لآل محمد للنبہانی ص ۲۵۹)
ترمذی شریف میں ہے کہ حُضورِ انور ، شافِعِ مَحشر ، مدینے کے تاجور ، بِاِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر، محبوبِ داوَرعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرتِ سیِّدُنا علی، حضرتِ سیِّدتُنافاطمہ، حضرتِ سیِّدُنا حسن اور حضرتِ سیِّدُناحسین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُم کے بارے میں فرمایا : ’’ جو اِن سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا اور جو اِن سے صُلح رکھے گا میں اُس سے صُلح رکھوں گا ۔ ‘‘ (سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۵ ص۴۶۵ حدیث ۳۸۹۶ )
سیِّدی عبدُ الوَہّاب شَعرانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی فرماتے ہیں : سیِّد شریف نے حضرتِ خطاب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خانقاہ میں بیان کیا کہ کاشِفُ الْبُحَیرہ نے ایک سیِّد صاحِب کو مارا تو اسے اسی رات خواب میں جنابِ رسالتِ مآب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس حال میں زیارت ہوئی کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اُس سے اِعراض فرما رہے (یعنی رخِ انور پھیر رہے )ہیں ۔ اُس نے عرض کی : یا رسولَ اللہعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! میرا کیاگناہ ہے ؟ فرمایا : تُو مجھے مارتا ہے ، حالانکہ میں قِیامت کے دن تیرا شفیع (یعنی شَفاعت کرنے والا)ہوں ۔ اس نے عرض کی، یا رسولَ اللہعَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے یاد نہیں کہ میں نے آپ کو مارا ہو ۔ ارشادفرمایا : کیا تُو نے میری اولاد کو نہیں مارا ؟ اُس نے عرض کی : ہاں ۔ فرمایا : تیری ضَرب میری ہی کلائی پر لگی ۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی مبارک کلائی نکال کر دکھائی جس پر وَرم تھا جیسے کہ شہد کی مکّھی نے ڈنک مارا ہو ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے عافِیّت کا سُوال کرتے ہیں ۔ (الشرف المؤبد لآل محمد للنبہانی ص ۲۶۸)
کیا سیِّد شاگرد کو اُستادمار سکتا ہے ؟
سُوال : تو کیا سیِّدطالبِ علم کو استاد بھی مار نہیں سکتا ؟
جواب : استاد بھیسیِّد کومارنے سے پرہیز کرے ۔ میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰناشاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی خدمت میں سُوال ہوا : سیِّد کے لڑکے سے جب شاگرد ہو یا ملازِم ہو دینی یا دُنیوی خدمت لینا اور اس کو مارنا جائز ہے یانہیں ؟ الجواب : ذلیل خدمت اس سے لینا جائز نہیں ، نہ ایسی خدمت پر اُسے ملازِم رکھنا جائز ۔ اور جس خدمت میں ذلّت نہیں اس پر ملازِم رکھ سکتا ہے ، بَحالِ شاگردبھی جہاں تک عُرف اور معروف ہو (خدمت لینا)شرعاً جائز ہے ، لے سکتا ہے اور اسے (یعنی سیِّد کو) مارنے سے مُطلَق اِحتِراز( یعنی بالکل پرہیز) کرے ۔ واللہ تعالٰی اعلم(فتاوٰی رضویہ ج۲۲ص۵۶۸)
سیِّد ملازِم کے ساتھ سُلُوک کا انداز
جناب سیِّد ایُّوب علی صاحِب (رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ )کا بیان ہے : ایک کم عُمر صاحِبزادے خانہ داری کے کاموں میں امداد کیلئے (اعلیٰ حضرت کے ) کاشانۂ اقدس میں ملازِم ہوئے ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سیِّد زادے ہیں ۔ لہٰذا (حضور اعلیٰ حضرت نے ) گھر والوں کو تاکید فرما دی کہ صاحِبزادے سے خبر دار کوئی کام نہ لیا جائے کہ مخدوم زادہ ہیں ۔
(یعنی آقا کے فرزندہیں ان سے خدمت لینی نہیں ، ان کی خدمت کرنی ہے لہٰذا) کھانا وغیرہ اور جس شے کی ضَرورت ہو (ان کی خدمت میں ) حاضِر کی جائے ۔ ‘‘ جس تنخواہ کا وعدہ ہے وہ بطورِ نذرانہ پیش ہوتی رہے ۔ چُنانچِہ حسبُ الاِْرشاد تعمیل ہوتی رہی ۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ صاحِبزادے خود ہی تشریف لے گئے ۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ج۱ ص۱۷۹) اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ