جہان کو ایک آن میں ہدایت (عنایت ) فرما دے ۔
وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَجَمَعَهُمْ عَلَى الْهُدٰى فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْجٰهِلِیْنَ(۳۵) (پ۷الانعام ۳۵)
ترجَمۂ کنزالایمان : اوراللہ چاہتا تو انہیں ہدایت پر اکٹھا کر دیتا تو اے سننے والے تو ہرگز نادان نہ بن ۔
اللّٰہ چاہتا تو کسی کو بھوک ہی نہ لگتی
مگراس نے دنیا کو عالمِ اسباب بنایا اور ہر نعمت میں اپنی حکمتِ بالِغہ کے مطابِق مُختَلف حصّہ رکھا ہے ۔ وہ چاہتا تو انسان وغیرہ جانداروں کو بھوک ہی نہ لگتی ، یا بھوکے ہوتے تو کسی کا صرف نام پاک لینے سے ، کسی کا ہوا سونگھنے سے پیٹ بھر تا ۔ زمین جو تنے (یعنی ہَل چلانے ) سے روٹی پکانے تک جو سخت مَشَقَّتیں پڑتی ہیں کسی کو نہ ہوتیں ۔ مگر اُس(عَزَّوَجَلَّ ) نے یونہی چاہا اور اس میں بھی بے شمار اختِلاف(فرق) رکھا ۔ کسی کو اتنا دیا کہ لاکھوں پیٹ اس کے دَرسے پلتے ہیں اور کسی پر اس کے اَہل وعِیال کے ساتھ تین تین فاقے گزر تے ہیں ۔ غرض ہر چیز میں ، اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ-نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا (پ۲۵الزخرف ۳۲)
ترجمۂ کنزالایمان : کیا تمہارے رب کی رحمت وہ بانٹتے ہیں ؟ہم نے ان میں ان کی زِیست کا سامان دنیا کی زندگی میں بانٹا ۔
کی نَیرنگیاں ہیں ۔ (مگر) احمق بد عقل ، یا اَجْہَلِ بددین(یعنی سخت جاہل گمراہ) وہ اس کی ناموس(بارگاہِ عظمت) میں چُون وچَراکرے کہ ’’ یوں کیوں کیا ، یوں کیوں نہ کیا ؟ ‘‘ سنتا ہے ! اس کی شان ہے :
َیَفْعَلُ الل یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠ (پ۱۳ابرھیم۲۷)
ترجَمۂ کنزالایمان : اللہ (عَزَّوَجَلَّ) جو چاہے کرے ۔
اس کی شان ہے :
َ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُ اِنَّ اللّٰهَ یَحْكُمُ مَا یُرِیْدُ(۱)(پ۶المائدہ، ۱)
ترجَمۂ کنزالایمان : بے شک اللہ (عَزَّوَجَلَّ) حکم فرماتا ہے جو چاہے ۔
اس کی شان ہے :
لاَ یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَل لَا یُسْــٴَـلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ هُمْ یُسْــٴَـلُوْنَ(۲۳)(پ۱۷الانبیاء۲۳)
ترجَمۂ کنزالایمان : اس سے نہیں پوچھا جاتا جو وہ کرے اور ان سب سے سوال ہو گا ۔
ہزاروں اینٹوں کی تقسیم کی بہترین مثال
زید نے روپے کی ہزار اینٹیں خریدیں ، پانسو(500) مسجد میں لگائیں ، پانسو پاخانہ کی زمین اورقَدَمچوں ([1])میں ۔ کیا اس سے کوئی اُلجھ سکتا ہے کہ ایک ہاتھ کی بنائی ہوئی، ایک مِٹّی سے بنی ہوئی ، ایک آوے (بَھٹّی) سے پکی ہوئی ، ایک روپے کی مَول لی(یعنی خریدی) ہوئی ہزار اینٹیں تھیں ، اُن پانسو میں کیا خوبی تھی کہ مسجِد میں صَرف(استِعمال) کیں ؟ اور ان میں کیاعیب تھا کہ جائے نَجاست(نَجاست خانے ) میں رکھیں ۔ اگر کوئی احمق اس(اپنے پلّے سے اینٹیں خرید کرلگانے والے ) سے پوچھے تو وہ یہی کہے گا کہ میری مِلک تھیں میں نے جو چاہا کیا ۔
بادشاہ سے الجھنے والے فقیر کو کوئی عقلمند نہیں کہتا
جب مجازی(غیر حقیقی) جھوٹی مِلک کا یہ حال ہے تو حقیقی سچّی مِلک کا کیا پوچھنا ! ہمارا اور ہماری جان و مال اور تمام جہاں کا وہ ایک اکیلا پاک نرالا سچّا مالِک ہے ۔ اس کے کام ، اس کے احکام میں کسی کو مجالِ دَم زَدَن(دم مارنے کی جرأت) کیامعنیٰ ! کیا کوئی اس کا ہَمسر(ہم پلّہ) یا اس پر افسر ہے جو اس سے ’’ کیوں اور کیا ‘‘ کہے ! مالِک علَی الاِطلاق(یعنی مالکِ مطلق، ہر کام کا مالک و مختار) ہے ، بے اِشتِراک ہے ( شرکت سے پاک)، جو چاہا کیا اور جو چاہے کرے گا ۔ ذلیل فقیر بے حیثیت حقیراگر بادشاہِ جبّار سے اُلجھے تو اس کا سر کھجایا ہے ، شامت نے گھیرا ہے ۔ اس(بادشاہ سے الجھنے والے ) سے ہر عاقِل(یعنی عقلمند) یہی کہے گا : اَو بد عقل بے ادب ! اپنی حد پر رہ ۔ جب یقینا معلوم ہے کہ بادشاہ کمالِ عادِل اور جمیعِ کمالِ صِفات میں یکتا و کامل ہے تو تجھے اس کے احکام میں دَخل دینے کی کیا مجال ! ؎
گدائے خاک نشینی تو حافِظاؔ مخروش
نِظامِ مملکتِ خویش خُسرواں دانَنْد([2])
( تو خاک نشین گداگر ہے اے حافظ ! شو ر مت کر، اپنی سلطنت کے نظام کو بادشاہ جانتے ہیں )
سیٹھ تو دانا نوکر پر بھی اعتِراض نہیں کیا کرتا
افسوس ! کہ دُنیوی، مَجازی (غیر حقیقی)جھوٹے بادشاہوں کی نسبت تو آدمی کو یہ خیال ہو اور ملِکُ الْمُلُوک(بادشاہوں کا بادشاہ) بادشاہِ حقیقی جَلَّ جَلا لُہٗکے احکام میں رائے زَنی کرے ۔ سلاطین تو سلاطین اپنا برابر زی بلکہ اپنے سے بھی کم رُتبہ شخص بلکہ اپنا نوکر یا غلام(بھی) جب کسی صِفَت کا استاد ماہِر ہو اور خود یہ شخص(یعنی اُس نوکر کا سیٹھ اگر) اس سے آگاہ نہیں تو